حاضر سروس لاکھ ریٹائرڈ سوا لاکھ

منگل 14 جنوری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

سنگین غداری کیس کے مرکزی ملزم سابق ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت کو ہی ;غیرآئینی; قرار دے دیا گیا ہے ۔ گویا جس خصوصی عدالت نے ملک میں ایمرجنسی لگانے اور آئین پامال کرنے کے سنگین جرم میں قانون کے مطابق چھ سال سے لٹکتا ہوا فیصلہ سنایا اس عدالت کو ہی فیصلہ سنانے کے بعد تین ہفتوں ایک آہنی عدالت کے زریعے سرے سے غیر آئینی قرار دے دیا گیا ۔

انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ یاد رہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کیخلاف درخواست پرویز مشرف نے دائر کی تھی اور وفاقی حکومت یعنی حکومتِ عمرانیہ نے بنفسِ نفیس اس کی حمایت کی ہے ۔
ہم ایک آئین شکن کو پھانسی کی سزا سنانے والے جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے پر پہلے سے ہی حیران تھے ،لیکن اب ہائیکورٹ کے مذکورہ فیصلے سے مطمعن ہیں ۔

(جاری ہے)

کیونکہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق اس سے پہلے کس آئین شکن کو اس کے فعل کی سزا دی گئی ہے اور ویسے بھی کوئی بھی آئینی شِق جنگیں لڑنے والے کسی بھی مردِ مجاہد پر لا گو ہو ہی نہیں ہو سکتی ۔

لہذا،لاہور ہائی کورٹ نے حقیقی معنوں میں اس ملک کے یرغمال شدہ عدالتی نظام کی صحیح اور بجا طور نمائندگی کی ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ کو اپنے حالیہ تاریخی فیصلے میں یہ بھی لکھنا چاہیئے تھا کہ جس نے جسٹس وقار سیٹھ کی خصوصی عدالت قائم کی تھی اب اسے بھی الٹا لٹکانا چاہیئے،تا کہ آئندہ کسی جج کو اتنی صاف گوئی کی ہمت نہ پیدا ہو سکے ۔ کیونکہ حاضر سروس لاکھ اور ریٹائرڈ سوا لاکھ کا ہوتا ہے ۔


یہ ملک کون چلا رہا ہے؟،عدالتوں کے فیصلے کہاں سے لکھے ہوئے آتے ہیں؟ اور نظریہ ضرورت کے نام پر عدالتوں میں کیا ادھم برپا ہے؟ اس بحث میں پڑے بغیر کم از کم یہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اس ملک کی عدالتیں صرف سیاسی لیڈروں کو ہی غدار، سسلین مافیا اور گاڈ فادر قرار دینے کے فراءض سر انجام دے رہی ہیں؟ ۔ چھ سال مقدمہ چلنے کے بعد لاہور ہائیکورٹ کو کیا آج ہی سمجھ آئی کہ جسٹس وقار سیٹھ کی خصوصی عدالت کا قیام ہی غیر آئینی ہے؟ اگر ہے تو پھر تو پھر مذکورہ کیس چھ سال کیسے چلتا رہا؟ ایسے انقلابی خیالات پہلے کیوں نہیں آئے؟ چوک،چوراہوں میں لوگ اب ایسے ہی نہیں کہ رہے کہ یہ عدالتیں ہیں یا طواءفوں کے کوٹھے ؟۔

گلی کوچوں میں بھی ایسے نہیں کہا جا رہا کہ جب بھی وقار میں غم و غصہ پایا جاتا ہے توعظمیٰ اور عالیہ کو بار بار ننگا کیا جاتا ہے ۔
یعنی آپ دیکھئے کہ لاہور ہائیکورٹ نے مشرف کیس میں فیصلہ دیا ہے قانون بعد میں آئے تو سزا نہیں دی جا سکتی لیکن دوسری جانب سپریم کورٹم پارلیمنٹ کو ہدایت کر رہی ہے کہ گریڈ بائیس کے ایک سرکاری ملازم کو قانون بنانے سے پہلے اس کی ملازمت میں توسیع دی جائے. قانون کے طالب اور پروفیسر سبھی اپنے سر پکڑ کر بیٹھے ہیں ۔


جھک کر سلام ہے جسٹس وقار سیٹھ کو جنہوں نے آئین اور قانون کے مطابق ایک ڈیکٹیٹر کو پھانسی دینے اور اس کی لاش کو لٹکانے کے ریمارکس اپنے فیصلے میں دیئے ہیں ۔ قوموں کوجسٹس شوکت عزیز صدیقی اور قاضی فائز عیسی جیسے لوگ صدیوں یاد رہتے ہیں جبکہ جسٹس منیر، پی سی او جج سابق چیف جسٹس جسٹس عبدل حمید ڈوگر اور لاہور ہائیکورٹ کا مذکورہ فیصلہ دینے والے جیسوں کو تاریخ اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیتی ہے اور پھر ان کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا ۔


اسی تاریخی لاہور ہائی کورٹ ہی ایک جج صاحب تھے مولوی مشتاق جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ سنایا تھا،بھٹو تو مر کر بھی امر ہو گیا ،اس کے نام لیوا آج بھی کروڑوں میں ہیں ، لیکن اس ملک کے عوام نے اپنی آنکھوں سے پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ جب جسٹس مولوی مشتاق کی وفات پر مکھیوں نے اس قدر حملہ کیا کہ تدفین کے لیئے آئے لوگ ان کاجنازہ سڑک پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ۔

(خدا ان کی غلطیاں معاف کر کے انہیں بخش دے ۔ آمین)
ملک کی عدالتوں کے باہر لٹکتی تڑکڑیوں پر انصاف کرنے کے حوالے سے قرانی آیات لکھوانے والے منصف، انصاف کرنے کے حوالے سے مذید آیات اور ان کا یہ ترجمہ بھی پڑھیں اور خدا کی عدالت میں جواب دینے کے لیئے تیار رہیں ۔
’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں ) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو ۔

اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے ۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا ۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا ‘‘
’’اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو ۔ سورۃ المائدۃ:8‘‘
کاش کہ ہمارے منصفوں کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا ہو اور وہ زندہ ضمیر کے ساتھ آذادنہ فیصلے کر کے تاریخ میں امر رہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :