تبدیلی، انکل سام اورحقائق‎‎

بدھ 26 جنوری 2022

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

آداب عرض،حالیہ تین ماہ میں تین مرتبہ فیس بک کی پابندیوں کا سامنا کر چکا ہوں اور اب دوبارہ پھر سے فیس بک اکاونٹ پرحق و سچ آشکارا کرنے کی پابندی کا خدچہ بدستور اتم موجود ہے لیکن خاکسار نے بھی ملک میں موجود سامراجی ایجنٹوں کو بے نقاب کرنے کی قسم کھائی ہے جو حسبِ ہدایت ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ انہیں بے نقاب کرنا ہی درحقیقت محب الوطنی ہے۔


معاہدے کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان میں انکل سام کا ایجنڈا مکمل کرنا ہے(جو پچاس فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ جس میں سی پیک کی بندش، گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری اور اسٹیٹ بینک کی آئی ایم ایف کو حوالگی سرِ فہرست ہے) اس لیئے کپتان کا  اقتدار میں رہنا ضروری ہے۔یہ بات نواز شریف اورزرداری اچھی طرح جانتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس لیئے انہیں عمران خان کو ہٹانے میں کوئی جلدی نہیں. اپوزیشن کے دباو کے تحت اگر زیادہ سے زیادہ کوئی سیاسی تبدیلی رونماء ہوئی بھی وہ صرف لیڈر آف دی ہاوس کی تبدیلی کی حد تک ہی ہو گی یعنی صرف صرف کھوتا تبدیل ہو گا،ٹرالی وہی رہے گی(عوام کو مطمعن کرنے کے لیئے)۔

اس لیئے بھولی بھالی قوم آنے والے دو سالوں میں بھی موجودہ عذاب سہنے کے لیئے تیار رہے،
باقی ملکِ پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا نہ ہو سکے،ایٹمی پروگرام منجمد ہو، ملک بھاری اور مہنگے قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہے،تمام اہم سرکاری عہدوں پر امریکی حمایت یافتہ افراد کی تقرری ممکن ہو اور بھارتی بالا دستی قبول رہے،یہ امور بھی انکل سام کے ایجنڈے کے اہم نکات ہیں جو تقریباً پورے ہو چکے ہیں بس اب ایک اسرائیل کو آفشیلی قبول کرنا اور ایٹم بم کو فضول قرار دینا باقی رہ گیا ہے۔

آیئے اب زرا موضوع تبدیل اور ماضی کو کریدتے ہیں۔
حقائق قبر سے نکل کر بھی منظرِ عام پر آنے سے نہیں رکتے۔آپ بھلے قوم کو مطالعہ پاکستان پڑھا پڑھا کر گمراہ کرتے رہیں،قوم کے نونہالوں کو حقائق سے دور رکھنے کے لاکھ جتن کرتے رہیں،اس سرکاری مشق کا زرہ بھر بھی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ الٹا ایسا ناقابلِ تلافی نقصان ضرور رونماء ہو گا جس کا ازالہ ممکن نہیں۔

مثال کے طور پر پاکستان سے علیحدہ ہونے والا حصہ جو اب دنیا میں ایک نئے ملک کے نام پر بنگلہ دیش کہلاتا ہے جبکہ بلوچستان میں آذادی اور خود مختاری کے نعرے کوئی نئی بات نہیں۔ حقائق آج بری طرح ہمارا منہ چڑا رہے ہیں لیکن ہمارے کوئیں کے مینڈکوں میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ اپنے قومی نصاب میں ملک ٹوٹنے کی اصل وجوہات بیان کریں تا کہ مستقبل میں خدا نخواستہ کسی ایسی ہزیمت سے بچا جا سکے یا کم از کم کوئی سبق ہی سیکھا جا سکے۔

(گو کہ ملک ٹوٹنے کی وجوہات اب بچہ بچہ بھی جانتا ہے)
اگر برسوں قبل ہم مولانا مودودی سمیت اپنے دیگر اسلاف کو”ایجنٹس“ قرار دینے کے بجائے ان کے حقیقت پسندانہ موقف پر اپنے کان دھرتے تو آج خطہ کی صورتِ حال مختلف ہوتی اور برِ صغیر کے مسلمان یقینا  ایک بڑی قوت ہوتے۔ مولانا ابولکلام آزاد کوئی غیب کا علم نہیں رکھتے تھے نہ وہ کوئی نجومی تھے، انہوں نے بھی دور کی نظر رکھنے والے اہلِ علم و دانش کی طرح وہی قوم کے سامنے بیان کیا جو ایک وقت میں انہیں بھی حالات کے مطابق صاف طور پر م محسوس اور دکھائی دے رہا تھا۔

مولانا کامندرجہ ذیل خطاب آپ نے بھی یقینا سوشل میڈیا پر پہلے دیکھا اور پڑھا ہو گا۔ اب زرا اپنے آپ سے ضرور سوال پوچھیئے گا کہ کیا ان کا مندرجہ ذیل خطاب خطہ کے موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا؟ اور اگر ان کا کہا لفظ بہ لفظ درست ثابت ہوا ہے تو پھر اسے قومی نصاب سے چھپانے میں کیا حرج ہے۔انٹرنیٹ، ڈیجیٹل و سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں نجانے ہم نے کہاں اپنی دنیا بسائی ہوئی ہے؟ اور باقی کی دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے۔

 
مولانا ابولکلام آزاد نے 2ستمبر1946 کو بیرون دہلی دروازہ لاہور میں اپنے تاریخی خطاب میں فرمایا ”میری بات یاد رکھو اگر جناح اپنی بات پر اڑے رہے تو پھر ہندوستان ہی تقسیم نہیں ہو گا،پاکستان بھی تقسیم ہو گا۔امرتسر تک کا علاقہ ہندوستان لے جائے گا اور پاکستان پر وہی لوگ قابض ہو جائیں گے جو  آج بھی انگریز کے نمک خوار اور غم خوار ہیں۔

یہ امراء کی ایک جنت ہو گی  لیکن نناوے فیصد عوام کے لیئے یہی شب و روز ہوں گے اور اسلام ایک مسافر کی طرح ہو گا۔مسلم لیگ والو! تم ہندوستان کے مسلمانوں کا حل پاکستان بتاتے ہو میرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا مسئلہ تمہاری  مجوزہ تقسیم سے کبھی حل نہیں ہو گا۔ہاں اس سے دس کروڑ مسلمان تین حصوں میں بٹ جائیں گے“  (بحوالہ روزنامہ انقلاب  لاہور۔ 4 ستمبر 1946)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :