’’سیکولر بنگلہ دیش اور حقائق‘‘‎‎

جمعہ 29 اکتوبر 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ نے ملک میں سنہ 1972 کا سیکولر آئین دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ممکنہ اقدام سے ریاست کا سرکاری مذہب اسلام نہیں رہے گا۔ یاد رہے سنہ 1988 میں فوجی حکمراں ایچ ایم ارشاد نے اسلام کو بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب قرار دیا تھا جبکہ سنہ 1972 کا آئین ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان نے نافذ کیا تھا۔

بنگلہ دیش کو دوبارہ سے سیکولر ریاست بنانے کا اعلان بنگلہ دیشی وزیر اطلاعات مراد حسن نے حالیہ 14 اکتوبر کو کیا تھا،جس کے بعد وہاں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جن میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیش اکثریتی مسلمان آبادی کا ملک ہے،وہاں بسنے والے سینکڑوں ہندو خاندان کئی عرصہ قبل بھارت واپس جا چکے ہیں البتہ سینکڑوں پاکستانی وہاں کے مخصوص کیمپوں میں ضرور موجود ہیں،جن کی ہماری ریاست کو کوئی خبر نہیں۔

(جاری ہے)

بات آگے نکل گئی اصل موضوع کی جانب آتے ہیں۔
بنگلہ دیش آئندہ چار پانچ سال بعد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے جا رہا ہے،گویا بنگلہ دیش ہمیں یعنی پاکستان اور دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کو قرضہ دینے کے قابل ہو گا۔اس وقت وہاں فی کس آمدنی تین لاکھ 44ہزار روپے سے زائد ہے۔باالفاظِ دیگرآج کا بنگلا دیش پاکستان سے 45 فیصد امیر یا خوشحال ہے۔


اب سوال یہ کھڑا ہے کہ بنگلا دیشی وزیرِا عظم شیخ حسینہ واجد نے کن وجوہات اور ممکنہ حالات کے پیشِ نظر اپنے ملک میں سنہ 1972 کا سیکولر آئین دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟اس سوال کا جواب جاننے کے لیئے دنیا میں فلاحی ریاستوں کے حامل موجودہ ترقی یافتہ یورپ کے ماضی کا ایک مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ سابق تاریک یورپ کو ترقی یافتہ بنانے کے لیئے وہاں کے عوام نے سب سے پہلے اپنے پادریوں کا ناطقہ اور امورِ مملکت میں مذاہب کے عمل داخل کو مکمل طور پر بند کیا اور اپنے مذہب کو سرکار سے علیحدہ کر کے اسے محض ویٹی کن سٹی تک محدود کر دیا۔

اس طرح جب امورِ مملکت میں یورپ کے مولویوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوا توایک مضبوط جمہوری نظام نے جنم لینا شروع کیا جو آہستہ آہستہ پختہ ہوتا چلا گیا اور نتیجے میں یورپ کی فلاحی ریاستوں نے جنم لینا شروع کیا۔ سیکولر آئین کے تحت چلنے والی ریاست کیا ہوتی ہے؟اس سوال کا جواب وہ مسلمان بہتر طور پر دے سکتے ہیں جو امریکہ،برطانیہ،کینیڈا اور یورپ جیسے اکثریتی غیر مسلم ممالک میں درجہ اوّل کے شہری ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری، نجی ملازمتیں اور کاروبار کرتے ہیں، شہریت کے حصول کے لیئے سیکولر ممالک کی عورتوں سے شادیاں اوربچے پیدا کرتے ہیں، بے روزگار ہونے کی صورت میں سیکولر سرکار سے ماہانہ الاوئنس یا زکواۃ وصول اور، اپنی مذہبی یعنی اسلامی رسومات اور عبادات بغیر کسی خوف و خطر کے جاری رکھتے ہیں اور تو اور سیکولر ممالک میں قائم مساجد کے اخراجات اور مولوی صاحبان کی تنخواہیں بھی وہاں کی غیر مسلم حکومتیں ادا کرتی ہیں یہی نہیں بلکہ انہیں قومی خزانے سے ہر ماہ پنشن بھی۔


ہمارا دعویٰ ہے کہ ملکِ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا،سّتر سالوں بعد بھی ہم آج کس نہج پر کھڑے ہیں؟ زرا ملاحظہ فرمائیں: ہمارے قومی بینک سیکولر ممالک والے سودی نظام کے تحت چل رہے ہیں، باالفاظِ دیگر اسلامی سرکار نے اللہ کے ساتھ اعلانِ جنگ کیا ہوا ہے،، قرضے ہم سود پر اٹھا رہے ہیں، عملی طور پر سرکاری زبان انگریزی ہے،سرکاری دفاتر میں سیکولر انگریز کا لباس یعنی پیٹ کوٹ اور ٹائی چلتا ہے،ملک کی عدالتیں اپنے فیصلے انگریزی زبان میں دے رہی ہیں اور تو اور اسلامی عربی اور اردو زبان کی ترقی اور نشر و اشاعت کے بجائے تمامتر تعلیمی نظام اور کتب انگریزی زبان میں ہیں۔

ملک بھر میں درجنوں مذہبی اور مسلکی فرقے قائم ہو چکے ہیں جو بوقتِ ضروررت ریاست رِٹ کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ایک مذہبی شدت پسند گروہ آجکل بھی ریاست کو للکار رہا ہے،اور ریاست اس گروہ سے مذکرات کرنے کو اپنی کامیابی تصور کیئے ہوئے ہے۔
ہمیں اپنی کشتیوں میں موجود ان تمام سوراخوں کی کھل کر نشاندہی کرنا ہو گی، جنہیں ہم کبھی صابن‘ کبھی گوند اور کبھی کاغذ لگا کر بند کرتے ہیں اور کبھی قالین‘ درّی یا جائے نماز کے نیچے چھپا دیتے ہیں مگر ان سوراخوں کو مستقل بند نہیں کرتے۔

ہمیں مہذب دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنے کی عرض سے اپنے آپ سے منافقت کرنا، ترک کرنا ہو گی۔ مسلمان حکمران اپنے اپنے ممالک میں مکمل اسلامی نظام کے قیام کو نفاذ کریں یا پھر حسینہ شیخ کی پیروی کرتے ہوئے اپنی ریاستوں کو سیکولرا سٹیٹس بنائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :