"سامراج اور مذہب کا استعمال"‎‎

جمعہ 27 اگست 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

 کئی مساجد کی طرح میرے گاؤں کی جامع مسجد میں بھی اسلام کی تبلیغ کرنے والی جماعت کے افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ خاکسار اور گنہگار نے کئی برس قبل اپنی گاؤں کی مسجد میں بیٹھے ہوئے اس وقت کے مولوی صاحب مرحوم و مغفور کی تقریر میں یہ انکشاف بھی سنا تھا کہ زمین کو ایک بیل نے اپنے سینگوں پر اٹھایا ہوا ہے اور جب بیل تھک کر اپنے سینگ ادلی بدلی کرتا ہے تو زمین پر زلزلہ برپا ہوتا ہے۔


 خاکسار کی تبلیغی جماعت سے کوئی خاص وابستگی نہیں (جبکہ ہونی چایئے) لیکن یقین کے ساتھ اتنا ضرور عرض کر سکتا ہے کہ یہ پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ لیکن اللہ لوگ ہر قسم کے مذہبی اور سیاسی تعصب سے بالا تر ہو کر اپنے خرچے پر شہروں،دیہاتوں سے لے کر گلی اور محلے کی سطح پر دین کی اشاعت اور تبلیغ کرتے ہوئے شیوہِ پیغمبری اختیار کیئے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں،دورانِ حج اور خانہ کعبہ کے طواف کے دوران بھی چوروں کے ہاتھوں حاجیوں کی جیبیں کٹ جاتی ہیں لیکن اس میں خانہ کعبہ کا قصور نہیں۔یقینا لاکھوں افراد سے وابسطہ تبلیغی جماعت میں بھی ناپسندیدہ عناصر موجود ہوں گے، اس لیئے چند شرپسندوں کی وجہ سے شیوہِ پیغمبری اپنائے ہوئے تبلیغی جماعت یا اس کے کارکنان  پر بے جا تنقید کرنا درست نہیں۔

جانتا ہوں مذکورہ بالا گزارشات پر کئی دوست احباب خاکسار پر تنقید فرمائیں گے لیکن میں بطورِ طالبِ علم اس تنقید کو سیکھنے کے لیئے ضروری سجھتا ہوں،اس لیئے دل کھول کر اس ضمن میں اظہارِ خیال کیجئے گا تا کہ کچھ سیکھ اور اپنے علم میں اضافہ کر سکوں لیکن ساتھ میں نوٹ بھی فرما لیں، خاکسار تبلیغی جماعت کی مارکیٹنگ نہیں کر رہا کیونکہ جماعت کسی ایسے عمل کی محتاج نہیں۔


 گاؤں کے مولوی صاحب کے ہوشربا انکشاف اور تبلیغی جماعت کے ساتھ گاؤں والوں کے رویئے کو سامنے رکھتے ہوئے درج ذیل سطور پیشِ خدمت ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
  آپ کو یقینا معلوم ہو گا کہ 1906 سے پہلے کوئی اہلِحدیث نہیں تھا،1896 سے پہلے کوئی بریلوی نہیں تھا،1867 سے قبل کوئی دیوبندی نہیں تھا،250 ہجری سے پہلے کوئی حنبلی نہیں تھا،200ہجری سے پہلے کوئی مالکی اور شافعی نہیں تھا اور150ہجری سے قبل کوئی حنفی اور جعفری موجود نہیں تھا۔

یہی وہ دور تھا جب امتِ مسلمہ دنیا میں با اثر اور یکجا تھی۔ اسی دور میں کئی نامور فلسفی، عالمِ دین، حکماء اور سائنس دان پیدا ہوئے جنہوں نے زندگی بچانے والی ادوایات بنائیں، مختلف ایجادات کیں اور فزکس،کیمسٹری، ریاضی کے فارمولے بنانے سے لے کر فلکیاتی علوم تک کو دریافت کیا۔
اس وقت کی قابلِ رشک اور ناقابل شکست امتِ مسلمہ کو ناکام، شکست خودرہ اور غلام بنانے کے لیئے جب انگریز سامراج کی کوئی سازش کامیاب اور کارگر نہیں ہوئی تو مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم اور کمزور کرنے کے لیئے ان ہی کے مذہب دینِ اسلام کو ان کے خلاف بطور بطور ٹول بھر پور استعمال کیا گیا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سائنس اور ریاضی کی تعلیم کو فرض کفایہ کہلوایا گیا، انگریز سرکار کے تنخواہ دار اور کرائے کے مفتیوں سے پرنٹنگ مشین کے خلاف فتوے جاری کروائے گئے،جو 13 ویں صدی سے لے کے17 ویں تک برقرار رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس دوران مغرب تعمیر و ترقی کے میدان میں امتِ مسلہ کو پچھاڑتا ہوا بہت آگے نکل گیا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب انہی یہودیوں کی پرنٹنگ مشینوں پر قرآن حکیم کی طباعت ہونے لگی۔


یہی حال لاوڈ اسپیکرز کو بھی حرام قرار دے کر کیا گیا جو اب ہر گلی محلے میں آذانوں اور نعتوں سے گونجتے ہیں جبکہ ٹی وی اوروی سی آر جب ایجاد ہوئے تو بھی اس ٹیکنالوجی کے خلاف سب سے پہلے انگریز کے حمایت یافتہ مولوی ہی میدانِ عمل میں آئے اور اب اسی کافر ٹیکنالوجی سے دن رات استفادہ کیا جا رہا ہے۔   
  برطانوی سامراج نے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں بر صغیر میں فرقہ بندیاں قائم کیں، پیری فقیری اور قبر پرستی کو رواج دیا،اسلامی شریعت اور رسم و رواج سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانے کے لیئے نواب گیری اور جاگیرداری نظام کو اہمیت دلوائی، مذہبی عالموں اور دین کے مفکرین کے بجائے مساجد میں ملاازم کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی اور حوصلہ افزائی کی۔

خاص طور پر1832 کے بعد برصغیر پاک و ہند میں برطانوی سامراج نے اس ضمن میں اپنی سازششیں تیز کر دیں۔سلطنتِ عثمانیہ اور مغل بادشاہت کے خاتمے کے بعد پاک و ہند میں اپنے تنخواہ دار اور جاہل،ان پڑھ اور کرائے کے مولویوں کے زریعے اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اورسائینسی لیبارٹریوں کے بجائے مزارات اور مختلف مکتبہِ فکر کے مدارس قائم کرنے شروع کر دیئے جہاں مسلمانوں کی پنیری یعنی نئی نسل کو صرف قرآنی آیات کے رٹے لگوائے جاتے تھے،لیکن بغیر ترجمے کے تا کہ طالب علم قرآن حکیم کے اصل معنی اور مفہوم سے آشنا نہ نہ ہو سکیں۔

انگریز سامراج کی ان کامیاب سازششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج نوے فیصد مسلمان آبادی والے اسلامی پاکستان کی تقریباً ہر مسجد کے باہر مختلف مکتبہ فکر(فرقوں) کی تحتی آویزاں ہے جو امتِ مسلمہ کی یکانگت اور ایمان کا منہ چڑا رہی ہے۔ گویا جیسے پرچون کی دکانوں پر سائن بورڈ آویزاں ہوں لیکن دین کے اس کھلواڑ پر ہمارے اسلام کے قلعے کی اسلامی نظریاتی کونسل خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔


یہی نہیں بلکہ کئی ایک مساجد کے باہر باقاعدہ مختلف مکتبہِ فکر کے افراد کے داخلے پر پابندی کا بورڈ بھی آویزاں ہے۔کامیاب سامراجی سازششوں کے نتیجے میں غالباً کوئی 75 سے زائد فرقے ملکِ اسلامی البا کستان میں معرضِ وجود میں آ چکے ہیں اور ہر مولوی مسجد کے منبر پر بیٹھ اپنے فرقے اور مسلک کی تعریف و توصیف بیان اور اپنے فرقے کے ماننے والوں میں جنت الفردوس کے ٹکٹ بانٹ رہا ہے۔

کئی ایک تو مخالف مکتبہِ فکر کو ننگی گالیوں سے بھی نواز رہے ہیں جبکہ حالات اس افسوس ناک نہج پر آن پہنچے ہیں کہ دین، احادیثِ مبارکہ اور قرآنِ حکیم کی تبلیغ کرنے والے افراد کو یہ کہ کر بعض مساجد میں داخل نہیں ہو نے دیا جاتا کہ یہ وہابی ہیں جبکہ وہابی کے معنی اللہ کے دوست کے ہیں۔
 اس خطے سے نکل جانے کے باوجود انگریز سامراج کی اسلام کو تقسیم کرنے کی مذکورہ سازششوں کے اثرات آج بھی اس خطے میں پوری طرح موجود ہیں۔

کمزور مذہبی عقیدے کے حامل عام عوام تو ایک طرف، آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور خود ساختہ روحانیت میں گھرے ہوئے ریاستِ نیو مدینہ والے ہمارے وزیرِ اعظم صاحب بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیئے درگاہوں پر جا کر قبروں کو سجدے کرنے سے گریز نہیں کرتے جہاں مزارات کی گدیوں اور پیری فقیری کا کاروبار پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے جبکہ موصوف ڈی چوک میں اسپانسرڈ کنٹینر پر کھڑے ہو کر سادہ لوح عوام کے سامنے مذہب کا استعمال کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ  اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اے پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مددچاہتے ہیں۔
مذکورہ بالا گزارشات پیش کرنے کے بعد کم از کم خاکسار تو اس نتیجے پر پہنچا ہے کہا س اسلام کے قلعے میں بسنے والے وزیرِا عظم سمیت ملک کی آدھی سے زائد آبادی کو اللہ پر یقینِ کامل، ایمان کی پختگی اور اس پر با عمل ہونے کے لیئے تبلیغی جماعت کی خدمات کی اشدد ضرورت ہے۔آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :