کامیاب مزاحمت آخری حل

بدھ 1 ستمبر 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر اپنے حالیہ خطاب میں دو ٹوک اور واضع الفاظ کے ساتھ پاکستان اور اس میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات کا ذمہ دار اشٹبلشمنٹ کو قرار دیا ہے۔ انہوں اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ نام لے لے کر ان باوردی اور طاقتور عناصر کو چیلنج کیا ہے جو موجودہ کٹھ پتلی یا ہائبرڈ نظام و ڈیزائن کے خالق اور موجد ہیں اور اس بات میں بھی اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ نواز شریف کی طرح اشٹبلشمنٹ یا اعلی فوجی قیادت یعنی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید وغیرہ کے نام لے کر انہیں للکارنا ہر کسی سیاست دان یا سیاسی کھسروں کے بس کی بات نہیں۔


پی ڈی ایم کے حالیہ جلسے میں نواز شریف کے بے باک خطاب کا خلاصہ یا لبِ لباب یہ ہے کہ”اَب خاموشی جرم ہے“ اور عوام کو اپنے حقوق کے حصول کے لیئے گھروں سے باہر نکلنا ہو گا۔

(جاری ہے)

اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں رہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پسی ہوئی عوام کے بھپرے جذبات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ ملک پر قابض موجودہ رجیم کے خلاف اپنے اپنے گھروں سے نکلنے کو زہنی طور پر تیار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں کون لیڈ کرے گا؟ کون عملی طور پر خاموشی توڑتی ہوئی عوام کی راہنمائی کرے گا؟ نواز شریف کا بیانیہ اور سیاسی فلسفہ سو فیصد درست اور مقبول ضرور ہے لیکن ان کے سیاسی بیانیئے کو عملی شکل دینے کے لیئے ان کا پاکستان واپس آ کر اس عوام کو از خود لیڈ کرنا ناگزیر ہے جسے وہ خاموشی توڑنے کے لیئے کہ رہے ہیں۔

اگر وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی پاکستان میں دستیاب قیادت ان کا بیانیہ لے کر عوام کو اشٹبلشمنٹ اور اس کی کٹھ پتلی عوام دشمن حکومت کی چیرہ دستیوں کے خلاف کے خلاف گھروں سے نکال سکتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہو گا۔
آپ اشٹبلشمنٹ پر لاکھ تنقید کر لیں،اسے گالیاں دے لیں،اس کے خلاف کالم لکھوا لیں یا اپنے جلسے جلسوں میں بیان بازی کر لیں،ان تمام باتوں یا حربوں سے طاقتور اشٹبلشمنٹ کو زرا بھر بھی فرق نہیں پڑنے والا۔

ایسی مشقیں گزشتہ تین سال سے جاری ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔مسلمہ اصول ہے کہ طاقت ہی طاقت کو کاٹتی ہے، مسلم لیگ ن کی قیادت کو عملی طور پر مزاحمت اختیارکرنے سے ہی اشٹبلشمنٹ کے بڑھتے قدموں کو روکا جا سکتا ہے۔
اب کرنا کیا چاہیئے؟ گو کہ نواز شریف کے خلاف بے بنیاد، من گھڑت اور جھوٹے مقدمات قائم ہیں جس باعث ان کی دوبارہ گرفتاری ممکن ہے لیکن اس کے باوجود سرِ دست میاں صاحب ملک واپس آ کر راولپنڈی میں طاقت کے مرکز گیٹ نمبر چار کے باہر چار پانچ لاکھ افراد کے ساتھ اگر دھرنا مار کر بیٹھ سکتے ہیں تو شائد ان کو کامیابی مل سکے وگرنہ دوسری صورت میں ہماری امریکن نواز اشٹبلشمنٹ کی جڑیں اور شکنجے اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ انہیں اکھاڑنا ممکن نظر نہیں آتا۔

”اشٹبلشمنٹ کے  خلاف کامیاب مزاحمت“ یہی ایک وہ واحد راستہ رہ گیا ہے جس پر چل کر پاکستان اور بائیس کروڑ عوام کو حقیقی معنوں میں آذادی اور خوشحالی نصیب ہو سکتی ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :