حقائق اور لمحہِ فکریہ‎‎

ہفتہ 19 فروری 2022

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

 چند لمحوں کے لیئے زرا تصور فرمائیں کہ کسی مدرسے، اسکول،کالج یا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے برسوں بعد اگر آپ پر یہ عقد کھلے کہ جو اسباق آپ کو برسوں پڑھائے اور جو رٹے لگوائے گئے تھے وہ جھوٹ کے پلندے تھے، وہ درست نہیں تھے بلکہ تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تھا، آپ کو تصویروں کے صرف ایک رخ دکھائے گئے،مذہب اور ماضی قریب کی تاریخ کے حوالے سے ایسے ایسے من گھڑت واقعات کو درسی کتب کا حصہ بنایا گیا تھا جن کا دور دور تک کسی حقیقت سے واسطہ نہیں تھا، جب آپ کو معلوم پڑے کہ صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ جیسے دیگر لاکھوں طالب علموں کو ایک عرصے سے مطالعہ پاکستان کے نام پر مغالطہِ پاکستان پڑھایا جاتا رہا بلکہ گمراہ کیا جاتا رہا اور دوسری جانب مختلف قسم کے اسلام بتائے جاتے رہے جن کا قرآن سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔

(جاری ہے)

جب آپ کو معلوم پڑے کہ آپ جیسے کروڑوں عوام کی معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے”فرسٹ پاکستان“ اور”قومی سلامتی“ کے نام پر آپ کی ریاست جو ماں جیسی ہوتی ہے، اس کے ساتھ اور اس کے آئین کے ساتھ کیسا کیسا کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے تو آپ کے دل و دماغ پر کیا بیتے گی؟ آپ کے احساسات کیا ہوں گے؟ یقینا آپ ایک جانب اگر غصے سے بھپرے ہوں گے تو دوسری جانب ملک کے اصلی پالیسی سازوں یعنی اشٹبلشمنٹ، تنخواہ دار اورسرکاری علماء اور بے ضمیر اساتذہ کو ضرور کوسیں گے، جو آپ کو مسلسل گمراہ کرتے رہے۔

یہ تب ہو گا اگر آپ ایک عام خاموش طبع شہری ہوں لیکن اگر آپ ایک کسی بھی طور کے لکھاری ہیں تو اپنے تئیں ضرور آواز بلند کریں گے یا اپنی نجی محفلوں میں اپنے جذبات عام کریں گے۔
اب یہاں میں اپنی بات عرض کروں گا،کوئی لگ بھگ چودہ پندرہ برسوں سے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہوں لیکن مختلف حوالوں سے جن چشم کشا مگر تلخ ترین حقائق کا سامنا حالیہ تین سالوں میں کیا ہے اس کی پہلے مثال نہیں۔

مختلف الخیال احباب کی تحریروں اور وی لاگز سے وہ کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا جن سے تعلیمی اداروں میں محروم رہا بلکہ یہاں یہ عرض کرنا مناسب سمجھوں گا کہ جیسے پہلی جماعت میں داخلہ ہی سوشل میڈیا کے استعمال کے بعد سے شروع ہوا ہو۔ اصل موضوع کی جانب آتا ہوں۔
دشمن ممالک کو زیر کرنے کے لیئے انہیں معاشی اور اقتصادی طور پر اپاہج بنانے کے علاوہ پانچویں جنریشن وار یعنی ابلاغی جنگ ہو یا حکومتی پراپوگنڈا ڈیسک،اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل میں یہی وہ ہتھیار ہوں گے جن سے اندرون اور بیرو ن ملک جنگیں لڑی جائیں گی۔


دنیا بھر میں اس وقت ڈیجیٹل میڈیا انڈسڑی میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، دوسری جانب بی بی سی اور سی این این وائس آف امریکہ جیسے شہرہ آفاق میڈیا ہاوسز بھی اپنے اداروں کو چلانے کے لیئے اب سوشل میڈیا پر انحصار کرنے لگے ہیں،گویا الیکٹرانک میڈیا کا دور دورہ ہے۔ایک سیکنڈ میں آپ کا پیغام دنیا بھر میں پھیلنے لگا ہے،ایسے میں اگر کوئی ریاست جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر اپنے عوام کو گمراہ کرتی رہے گی تو نتیجہ وہی نکلے گا جو اب نکل رہا ہے،بس گریبانوں سے پکڑ پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنا باقی رہ گیا ہے،اس کے علاوہ اور کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی۔

ٹیوٹر،فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا فورمز پر جو درگت اس وقت اشٹبلشمنٹ کی بنائی جا رہی ہے وہ قابلِ توجہ لیکن ریاست کے لیئے لمحہِ فکریہ ہے۔
 آخر میں عرضِ پرواز ہوں کہ صحافیوں،سوشل میڈیا ایکٹیوٹس اور وی لاگرز پر حکومتی سرپرستی میں پر تشدد کاروائیوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، میری تمام ہمدردیاں ان میڈیا ارکان کے ساتھ ہیں جو حالیہ تین سالوں میں حکومتی اعتاب کا شکار رہے ہیں لیکن زرا اور آگے چلتے ہیں، کڑوی بات کرتے ہیں اور تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر دانش،حامد میر،محسن بیگ، منیب فاروق،رضوان رضی، عمران شفقت، سلیم صافی،کامران شاہد، سید طلعت حسین، ندیم ملک یا ان جیسے دیگر میڈیا ارکان جو ماضی قریب میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی ترجمانی کے فرائض انجام اور نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو ملک اور عوام دشمن قرار دیتے رہے،
مذکورہ میڈیا ارکان کو قومی امید تھی کہ ان کی خدمات کے صلے میں انہیں انعام و اکرام اور حکومتی عہدوں سے نوازا جائے گا،لیکن تمام تر امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب عمران خان نے ایجنسیوں کے مذکورہ ٹاؤٹس کو یہ باور کروایا کہ کل  وہ کسی اور کو بھی اپنا ضمیر فروخت کر سکتے ہیں اور کسی دوسرے فراڈیئے کو بھی قوم کے سامنے مہاتماء بنا کر پیش کر سکتے ہیں لہذا ایسے تمام میڈیا ٹاؤٹس کے لیئے محض شٹ اپ کال دستیاب ہے جو تین سالوں سے بھر پور طریقے سے دی جا رہی ہے۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :