مصیبت کی گھڑی اور ہمارے شرمناک رویے

پیر 13 اپریل 2020

Ali Qasim

علی قاسم

قوموں کی زندگیوں میں روز اول سے ہی مشکلات اور مصبتیں آتی رہی ہیں لیکن جب بھی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں نے ان مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہی کامیاب و کامران ٹھہریں۔اس وقت وبائی مرض کرونا کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح وطن عزیز میں بھی ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ متاثر ہوچکے ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیئے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

یہ ایک ایسا وقت ہے جس پر قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے لیکن ہماری قوم نے جو رویہ اختیار کیا اسے بڑی حد تک قابل رحم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ حکومت اپنی طرف سے پوری کوشش میں لگی ہے کہ کسی طرح محدود وسائل کے ساتھ ہی اس آفت سے نمٹا جا سکے اور امید ہے کہ جلد ہی اس وبا کے خاتمے کی خوش آئند خبر سننے کو ملے گی لیکن اگر معاشرتی لیول پر بات کی جائے تو ہمارے یہاں دو طبقات دکھائی دیتے ہیں ایک امیر طبقہ اور دوسرا غریب ۔

(جاری ہے)

لیکن اس وقت دونوں طبقات شش و پنج میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ،امیر طبقہ اس خوف میں ہے کہ کہیں وہ وبا سے نہ مر جائیں لہذا ن لوگوں کی طرف سے پر زور ڈیمانڈ کی جانے لگی کہ لاک ڈاؤن کے ساتھ مکمل کر فیو نافذ کر دیا جائے اور غریب لوگ اس خوف کا شکار ہیں کہ اگر کرفیو لگا دیا گیا تو وہ بھوک سے مر جائیں گے۔اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وبائی امراض کو روکنے کے لیئے لاک ڈاؤن ضروری ہے اور اس وقت پورے پاکستان میں لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے ۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے بہت اچھی بات کی کہ افرا تفری کے فیصلے بہت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ،اسی سلسلہ میں حکومت کی طرف سے نوجوانوں پر مشتمل ٹائیگر فورس بھی بنائی گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں جن علاقوں میں کیسسز کی تعداد بڑھ گئی انہیں مکمل لاک ڈاؤن کر دیا جائے گا اور یہ نوجوان وہاں راشن اور کھانا پہنچانے کی ذمہ داری نبھائیں گے۔

جبکہ باقی علاقوں میں نرمی اختیار کرنے کی پالیسی رکھی گئی تا کہ کاروبار زندگی بھی رواں دواں رہ سکے۔بر حال کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ متاثر ہوئے تو حکومت نے احساس پروگرام کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا جس میں ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو بارہ ہزار روپے کے حساب سے رقم دی جائے گے تا کہ وہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں لیکن اس پروگرام میں تا حال ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد اپلائی کر چکے ہیں ۔

کیا یہ سب لوگ متاثرین میں آتے ہیں ہر گز نہیں یاد رکھیں اگر آپ کو یہ رقم مل بھی جائے لیکن آپ مستحق نہیں ہیں تو یہ آپ نے کسی مستحق کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور آپ اس رقم سے گھر میں جو مرضی حلال چیز لے کے آئیں وہ حرام سے بھی بد تر ہے ۔خیر ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ تعداد میں ایسے افراد بھی ہیں جن کے بینک بینس لاکھوں کروڑوں میں ہیں لیکن صرف تھوڑی دیر کے لیئے فرض کریں کہ خدانخواستہ اگر آپ بھی اس مہلک وبا کی بھینٹ چڑھ گئے تو کیا کرو گے دولت کے اس انبا ر اور جائیدادوں کا ۔

ہر گلی،محلے اور بستی کی سطح پر دیکھا جائے تو سوائے چند گھرانوں کے باقی صاحب حثیت لوگ مو جود ہیں اگر یہ سب مل کر اپنی بستی،محلے اور علاقہ کے غریب لوگوں کے راشن کو بندوبست کر لیں تو شائد حکومت سے کسی کو کچھ بھی نہ لینا پڑے ۔یاد رہے کہ سب لوگ ایک جیسے نہیں بہت سے افراد اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے رہیے ہیں اور ان کے لیئے یقینا ا للہ نے اجر عظیم رکھاہے۔

لیکن یہاں تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو بہت درد ناک دکھائی دیتا ہے ،چند دن پہلے اردو ادب کے عظیم نام استاد محترم پروفیسر جہانگیر طورو صاحب نے ایک شعر بھیجا جس میں کچھ افراد ایک لڑکی کو ٓٹے کا ایک تھیلہ دیتے ہوئے فوٹو بنوا رہے تھے اور وہ بیچاری شرم کے مارے بیچارگی کی عملی تصویر نظر آرہی تھی شعر ملاحظہ ہو
۔تو کہانی کے ہی پردے میں بھلی لگتی ہے
زندگی․․تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی
اور نجانے اس وقت ایسی کتنی تصویریں سوشل میڈیا کی زینت بن چکی ہیں جن میں دو،چار افراد کسی مجبور کو راشن دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔

اور وہ بیچارہ اپنی عزت و انا کا قتل عام محض اس مجبوری کی وجہ سے کروا رہا ہوتا ہے کہ گھر میں بھوکے بچوں کو کیا جواب دے گا، باقی معذرت کے ساتھ ایسے انسانیت کے ہمدرد افراد ایک بات یاد رکھیں کہ انہوں نے جو شہرت سوشل میڈیا پر حاصل کرنا ہوتی ہے وہ یہیں مل جاتی ہے پھر اگلے جہان ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا ۔اس کے علاوہ ا ٓپ سب لوگوں پر زندگی کی چند حقیتیں آشکار ہو چکی ہیں گھر میں رہ کر،سادہ کپڑے پہن کر،دو وقت کی روٹی کھا کر بھی زندگی اچھی طرح سے گزر سکتی ہے اور اگر ہم بڑے بڑے ہوٹلز پر جا کر دعوتیں نہ اڑائیں،برانڈڈ کپڑے اور چیزیں استعمال نہ کریں تو زندگی ہر گز نہیں رکتی پھر بھلا دولت کے انباروں پر سانپ بن کر بیٹھنے کا کیا فائدہ ۔

کیوں نہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی مدد کر کے دنیا و آخرت کی خوشنودیاں سمیٹ لیں ۔لیکن بدقسمتی سے اس وقت ہمارا جو رویہ ہے وہ انتہائی شرمناک ہے ۔اول تو ہم کسی کو کچھ دینے کو تیار نہیں اگر دے بھی دیں تو ذاتی تشہیر لازمی ہے ۔بدقسمتی سے ہماری مثال کچھ اسی قسم کی بن چکی ہے کہ
یہ ہیں مسلمان جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔


بات صرف یہی نہیں رکی ابھی تو مشکل کی اس گھڑی میں ہمارے مسلمانوں نے ہی جس طرح خود ساختہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزیاں کی ہیں یہ ایک الگ اور المناک داستان ہے انشاللہ اس پر پھر کبھی سہی۔اوریہاں پر بڑے بڑے بزنس مین،فیکٹریوں،ہوٹلز،شاپنگ مال،اور باقی بھی مستحکم کاروباری افراد سے گزارش ہے کہ وہ اپنے ورکرز کی ضرور مدد کریں کیونکہ انہی لوگوں کی دن رات کی محنت سے آپ نے عمر بھر کوب پیسہ بنایا ہے اگر ایک دو ماہ منافع نہ بھی ملا تو آپ پر کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا البتہ غریب مزدور کا چولھا ٹھنڈا نہیں ہو گا۔آخر میں ایک مرتبہ پھر بس اتنی سی گزارش ہے کہ خدارا اپنے رویوں پر نظر ثانی ضرور کریں اور پل بھر کے لیئے سوچیں کہ کیا اس وقت ہمارے رویے واقعی شرمناک نہیں ہیں ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :