کرونا وائرس،ڈریں مت ،احتیاط ضروری ہے

ہفتہ 28 مارچ 2020

Ali Qasim

علی قاسم

اس وقت کرونا وائرس قریبا کرہ ارض کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔سپین سے امریکہ تک شائد ہی کوئی ایسا ملک ہو جو اس وائرس کا شکا ر نہ ہواہو۔اگر عدادو شمار کے چکر میں نہ بھی پڑیں تو اس مہلک وائرس کی تباہ کاریاں آئے روز بڑھ رہی ہیں اور ہلاکتوں کے حوالے سے سب سے خطرناک صورتحال اٹلی،سپین اور ایران میں ہے ۔باقی ممالک بھی محفوظ نہیں ہیں اور ہر طرف غیر یقینی کی صورتحال ہے ،سرحدیں بند ہو چکی ہیں،ایئر پورٹس خالی پڑے ہیں ،دنیا کے پر رونق شہروں میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے گہرا سناٹا چھایا ہوا ہے،سڑکیں ویران اور سنسان ہو چکی ہیں،لوگ گھروں میں اسیر ہو چکے ہیں ،ہر طرف ہو کا عالم ہے اور نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ زمین نامی سیارے پر زندگی کی چہل پہل ختم ہو کے رہ گئی ہے۔

(جاری ہے)

بقول شاعر
عجیب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
برحال وطن عزیز میں بھی جب سے کرونا وائرس کے کیسسز منظر عام پر آئے ہیں ماحول میں عجیب سی سراسیمگی پھیل چکی ہے اور جوں جوں ان کیسسز کی تعداد بڑھ رہی ہے خوف کے سائے بھی لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔اس صورتحال سے نمٹنے کے لیئے حکومت نے سندھ،پنجاب،بلوچستان،آزاد کشمیر اور گلگت بلستان میں لاک ڈاؤن کر دیا ہے اور عوام الناس کو صرف اشیائے خوردونوش،میڈیکل کی سہولیات حاصل کرنے کے لیئے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔

اب چونکہ یہ ایک وبائی مرض ہے اور اس طرح کے اقدامات سے انشااللہ آئندہ چند روز میں بڑھتے ہوئے کیسسز میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جائے گی،اس کے علاوہ مریضوں کے لیئے قرنطینہ سنٹرز بنا دیئے گئے ہیں جہاں پر ڈاکٹر صاحبان دن رات مریضوں کی نگہداشت میں مصروف عمل ہیں ۔اس موقع پر ان تمام ڈاکٹرز حضرات اور میڈیکل سٹاف کو بھی سلام جو انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سر شار ہو کر دوسروں کی زندگیاں بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ پاک فوج اور تمام ریاستی اداروں کا بھی شکریہ جو اس وبا کی روک تھام کے لیئے اپنے اپنے فرائض ایمانداری و نیک نیتی سے سر انجام دے رہے ہیں۔

خیر اس وقت ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے اور وہ ہے بے جا خوف پھیلانا جس میں ہمارے سوشل میڈیا کے دانشوروں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔تاریخ گواہ ہے ہے جب خوف سرایت کر جائے تو دنیا کی مضبوط ترین قومیں بھی شکست سے دو چار ہو گئیں لیکن ہم نے یہ جنگ ہر صورت میں انشااللہ جیتنی ہے جس کے لیئے ذمہ داری اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ،اس کی واضح مثال ہمارا بہترین دوست ہمسایہ ملک چین ہے جس کی عوام نے اس وائرس کو ہرا کر دنیا کو باور کروا دیا کہ وہ ایک زندہ اور مستقل مزاج قوم ہے۔

آج ہمیں بھی اس طرح کی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے ۔لیکن ہمارے یہاں اپنی اپنی ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرنے کی بجائے جس کے جی میں جو آرہا ہے وہ سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے ،کاپی پیسٹ کا زمانہ ہے بلا تحقیق کوئی بھی تحریر سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہو چکے ہیں۔پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر بہت وائرل ہوئی جس پر لکھا گیا کہ اٹلی کا وزیراعظم رو رہا ہے اور اس نے کرونا وائرس کے خلاف ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں تو ہمارا کیا بنے گا وغیرہ وغیرہ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو یہ تصویر برازیل کے صدر کی ہے اور یہ اس وقت لی گئی جب وہ کوئی خاص خبر سن کر رو رہا تھا۔

اس قسم کی اور بھی کافی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں آخر مایوسی کی خبریں پھیلا کر آپ لوگ چاہتے کیا ہیں ؟ صرف یہی نہیں ایک اور عجیب بات دیکھنے کو ملی ہے کہ ہر کوئی ڈاکٹر بن چکا ہے اور بغیر تصدیق کرونا وائرس کی علامات سوشل میڈیا پر ڈالی جارہی ہیں جنہیں پڑھ کر لوگ اپنے آپ کو ویسے ہی کرونا وائرس کا مریض سمجھنے لگے ہیں ،کھانسی،زکام،نزلہ اور موسمی بخار تو نارمل حالات میں بھی لوگوں ہوتا ہے جس کا ہرگز مطلب نہیں کہ یہ کرنا وائرس ہے۔

اس معاملے کو ڈاکٹر صاحبان ہی بہتر جانتے ہیں اور وہی اس کے بارے میں علاج بتا سکتے ہیں آپ لوگ مہربانی کرکے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں ۔اس کے علاوہ اب اچھی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں دنیا کے کچھ ڈاکٹر اس مرض کے علاج کا دعوی بھی کر چکے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق پوری دنیا میں ایک لاکھ سے زائد متاثرہ فراد صحتیاب بھی ہو چکے ہیں ۔ برکیف سب سے اہم سوال کہ اب ہمیں ان حالات میں کیا کرنا چاہیے ؟سب سے پہلے تو ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں اور حکومتی سفارشات پر مکمل عمل کریں ۔

حکومت کی جانب سے وقتا فوقتا جاری ہونے والے ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔چونکہ یہ ایک وبائی مرض ہے گھروں میں رہیں اور کسی خاص مجبوری کے تحت گھر سے نکلیں ،رش والی جگہوں پر ہرگز نہ جائیں ، اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح سے اور باقاعدگی سے دھوئیں،سینیٹائزر کا استعمال کریں ،چھینکتے وقت اور کھانسی کے عمل کے دوران منہ کو ڈھانپ کر رکھا جائے ،فیس ماسک کا استعمال کریں،ماہرین کے مطابق یہ وائرس تین سے چار دن گلے میں رہتا ہے اور اس کے بعد پھیپھڑوں میں پہنچ کر ذیاد ہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے لہذا گرم پانی پیئیں ،گرم پانی کے گھرارے کریں اور وٹامن سی کی غذایت والی خوراک استعمال کریں ۔

احتیاط علاج سے بہتر ہے کے مصداق آپ اس مرض سے بچنے کے لیئے یہ چند احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور گھبرائیں مت انشااللہ ہم جلد ہی اس وبا سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :