مولانا طارق جمیل ایک عظیم دینی شخصیت

منگل 5 مئی 2020

Ali Qasim

علی قاسم

گزشتہ دنوں وزیر اعظم احساس پروگرام میں معروف مبلغ دین مولانا طارق جمیل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میڈیا پر جھوٹ بولا جاتا ہے ۔ ان کے اس بیان کے بعد میڈیا سے وابستہ کچھ افراد نے زبردست احتجاج کیا کہ انہیں جھوٹا کیوں کہا گیا ہے ۔جس پر مولانا طارق جمیل نے سینئر کالم نگار اور اینکرپرسن جاوید چوہدری کے پرو گرام،، کل تک ،،میں وضاحت پیش کی کہ سارے سے مراد سو فیصد ہر گز نہیں ہوتا کہ سب لوگوں کا شمار کیا جائے البتہ اس میں محاورتااکثریت ایسے لوگوں کی ہے لیکن اس کے باوجود اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو وہ معذرت خواہ ہیں ۔

مولا نا کے اس بڑے پن پر اینکر پرسن جاوید چوہدری نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا اور یوں یہ معاملہ ایک طرح سے ختم ہو گیا۔ لیکن اس وقت الیکٹرانک،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بعض عناصر ایسے ہیں جو مولانا کی ذات پر باقاعدہ کیچڑ اچھالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ان افراد کی طرف سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ مولانا حکمرانوں کو کیوں ملنے جاتے ہیں ؟سٹار کھلاڑیوں اور فلمی سٹارز کو دعوت تبلیغ کیوں دیتے ہیں ؟مولانا بڑی بڑی تقاریب میں شرکت کیوں کرتے ہیں ؟مولاناکیا ریسرچ سکالرز ہیں ؟مولانا ایجینسیوں کی لکھی تقاریر کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی حکمران کو ملنے، یا کسی بڑی تقریب میں شرکت کرنے میں ممانعت کیا ہے ؟یا یہ حق صرف میڈیا کے افراد کو حاصل ہے کہ وہ شریک ہو سکتے ہیں باقی افراد نہیں۔جہاں تک کسی فلمی سٹار یا کھلاڑی کو دعوت تبلیغ دینے کی بات ہے تو اس میں برائی کیا ہے ؟کیا ان لوگوں پر پابندی ہے کہ وہ توبہ کر کے اللہ کی طرف مکمل رجوع نہ کر لیں ۔یہ سب لوگ بھی اللہ کی مخلوق ہیں ان کو دعوت دینا بھی ضروری ہے۔

باقی اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے اور یہ اس کی شان کریمی ہے کہ جب چاہے کسی پر بھی ہدایت کے دروازے کھول دے ۔برحال اب جہاں تک حکمرانوں کو ملنے کا سوال ہے تو مولانا نے جب سے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے اور موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر دعا کروائی ہے عمران خان کے مخالف افراد نے مولانا کو آڑے ہا تھوں لیا ہوا ہے ۔حالانکہ مولانا ایک اور اینکر پرسن سلیم صافی کے پروگرام ،، جرگہ ،،میں اس سوال کا جواب دے چکے ہیں کہ انہوں نے اس لیئے یہ دعا کروائی کہ اگر حکمران ٹھیک راستے پر ہوگا تو قوم کے حق میں ٹھیک فیصلے کرے گا اور قوم کا اجتماعی فائدہ ہو گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ سابق حکمرانوں میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے حق میں بھی دعا کرتے تھے۔اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت مو لانا نے بلکل ٹھیک کیاتھا اور اب نہیں؟تو ایسے افراد سے گزارش ہے کہ آپ کو اگر بغض عمران خان سے ہے تو اس بات کو مولانا صاحب سے منسوب نہ کریں ۔رہی بات ریسرچ سکالرز کی تو اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہ سکتا البتہ اتنا معلوم ہے کہ مولانا ایم بی بی ایس کی تعلیم کوخیر باد کہہ کر دین کے راستے میں آگئے اور اگر آپ کو کبھی بھی مولانا کی تقریر سننے کا موقع ملے تو آپ خود اندازہ لگا سکیں گے کہ مولانا کس قدر ہر بات پر قران و احادیث کا حوالہ دیتے ہیں یہاں سے آپ کو مولانا کی علمی اور اسلامی شخصیت کے پہلو کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا ۔

خیر مولانا نے اسلام کی دعوت دینے کے لیئے ملکوں ملکوں سفر کیئے وہاں کی ثقافت اور افراد کے رویہ جات کا قریب سے مشاہدہ کیا ،ان گنت لوگ آپ کی دعوت پر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے،اللہ نے زبان میں اتنی فصاحت عطا فرمائی کہ آپ کی بات سنتے ہی حکمرانوں سے لے کر عام آد می کے دل میں اتر جاتی ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص نہ صرف سچائی کی بات کرے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہو تو لوگ خودبخود اس کی پیروی کرنا شروع کر دیں گے۔

برکیف مولانا اور راقم کا تعلق ایک ہی علاقہ سے ہے, آج تک ان سے کوئی باقاعدہ ملاقات نہیں ہے لیکن سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کا تعلق ایک زمیندار خاندان سے ہے اور وہ رفاہی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔صرف یہی نہیں مولانا ہر خاص وعام میں مقبول ہیں ۔جہاں کہیں بھی مولانا کی تقریر ہوتی ہے کبھی کوئی اشتہار دیکھنے کو نہیں ملتا لیکن تقریر سننے کے لیئے لوگوں کا جم غفیر امڈ آتا ہے ا ور ہزاروں کی تعداد میں آنے والے افراد کو انتظامیہ کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے ۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مولانا انسانیت کا درس دیتے ہیں ،انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق کیاہیں ، اچھے اعمال کی ترغیب بڑی خوش اسلوبی سے سمجھاتے ہیں ۔مولانا کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ جب بھی ان کی تقریر سسنے کا موقع ملا دل خود بخود نیکی کی جانب راغب ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ مولانا کا خود باعمل ہونا ہے ۔رہی بات ایجینسیوں کی لکھی تقریر کی تو مولانا نے کبھی بھی منبر پر بیٹھ کر فرقہ واریت کو ہوا نہیں دی بلکہ ہر بار ہاتھ جوڑ کر استدعا کی کہ ایک دوسرے کا احترام کرو اور ایک امت بن جاؤ۔

اب لوگ اس بات کو ایجینسیوں سے جوڑ دیں تو کیا کہا جا سکتا ہے انہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے قران مجید میں فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ،، اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو او ر تفرقے میں نہ پڑو،،۔باقی قدرو منزلت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔ اللہ نے مولانا کو جو عزت دی ہے وہ جھوٹے پرپیگنڈوں اور کیچڑ اچھالنے سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا اور ان باتوں سے مولانا کی ذات پر ذرہ برابربھی اثر نہ پڑے گا۔

البتہ ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیا ہم سب بحیثیت مجموعی پوری قوم زندگی کے ہر شعبہ میں واقعے سچے اور ایماندار ہیں؟بدقسمتی سے آج کون سی معاشرتی برائی ہے جو ہمارے معاشرے میں بدرجہ اتم نہیں پائی جاتی؟ اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟دوسروں کی ذات پر انگلی اٹھانے سے پہلے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہو گا کہ اچھائی کے کاموں میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟ ۔آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ مولانا طارق جمیل ایک عظیم مبلغ دین ہیں ان کے حوالے سے کوئی بھی بات سوچ سمجھ کر کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :