آیاصوفیہ کا خوف کیوں؟

اتوار 19 جولائی 2020

Altaf Satti

الطاف ستی

آیاصوفیہ کی تاریخی عمارت ماضی کی طاقتوں اور تہذیبوں کا شاہکار ہے یہ عمارت بزنطینی سلطنت کے ایک بادشاہ نے 532 میں تعمیر کروائی اور پھر اس کو ایک چرچ میں تبدیل کیا گیا اس کے بعد سلطنت عثمانیہ کا دور آیا اور اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا
 سلطنت عثمانیہ کا دور تیرہویں صدی سے لیکر پہلی جنگ عظیم تک رہا اور یہ تقریبا چھ سو 22 سال پر محیط ہے پہلی جنگ عظیم کے فاتح طاقتیں فرانس اور برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے معاہدہ لوزان کے معاہدے کو بروئے کار لایااور ایک سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی جس کے تحت اس عمارت کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا یہ عمارت 1922 لیکر سن دو ہزار بیس تک ایک تاریخی عمارت کے ساتھ ساتھ ایک سیاحوں کے لیے بھی ایک تفریح گاہ کا مرکز بنی رہی
حال ہی میں ترکی کی ایک عدالت نے اسکی  اصلی سٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے ایوانوں میں اتنی ہلچل کیوں مچی؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے آپ کو سلطنت عثمانیہ کے بانی کی تاریخ کو پڑھنا ضروری ہوگا تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ترکوں کا ایک مشہور کای قبیلا یہاں آکر آباد ہوا اور اس نے آہستہ آہستہ ایمان کے زور پر مختلف علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا آہستہ آہستہ  مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے کرتے آخر کار بزنطینی حکمرانوں کو شکست دے کر قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کیا
 تیرھویں اور چودھویں صدی میں سلطنت عثمانیہ ایشیاء کے کچھ علاقوں اور جنوبی یورپ کے علاوہ افریقہ کے کافی ممالک سلطنت عثمانیہ کے حصے میں آ گئے
چھ سو سال کے عرصے میں آخرکار سلطنت عثمانیہ کو شکست پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوئی اور یوں سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور کئی ممالک مھرض موجود میں آئے
مگر سمجھ نہیں آتی کہ آج کل کی اتنی طاقتور سلطنت بھی سلطنت عثمانیہ سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اس کی وجہ مسلمانوں کے اندر ایک بہت بڑی طاقت ہے اور وہ ایمان کی طاقت ھے
یہ ایمان کی طاقت  ھی تھی کہ ایک چھوٹے سے ایک اکائ قبیلے نے اتنی بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی اور وہ دنیا کی تاریخ کی ایک بہت بڑی اسلامی سلطنت کے نام سے جانی جاتی ہے
لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا صوفیا کی عمارت سے اتنا خوف کیوں ہے ایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا دراصل مسلمانوں کے ایک سیاسی  سوچ کی عکاسی ہے
 ایک ایسی سوچ جس نے تیرھویں  چودھویں صدی میں دنیا کے مختلف علاقوں پر قبضہ کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی بقول علامہ اقبال کے کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
دنیا کے غیر مسلموں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ مسلمان دوبارہ اپنے جذبہ ایمانی کے تحت ہم پر قابض نہ ہو جائیں
اور یہی آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا ہی اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے
ایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا دراصل ایک سوچ ہے جس کے تحت دنیا کے مختلف ایوانوں میں ایک حد تک خوف کی کیفیت طاری ہوگئی ہے اور وہ سلطنت عثمانیہ کی بحالی کا راستہ روکنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ترک قوم ایک بہت بہادر اور خددار قوم ہے وہ اپنی تاریخ کو کبھی نہیں بھولتی اور وہ اس تاریخ کے تحت ہمیشہ آگے بڑھنے کی جستجو کریں گے اور اسی خدشے کے تحت دنیا میں  بے چینی ھے
 جب 1922 میں  سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے تھے اور ان میں سے کافی سارے مسلمان ممالک کا بھی ہاتھ تھا اسی طرح اب بھی  کسی حربے کے تحت مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ لڑانے کی سازش تیار کی جا رہی ہے ایسی بڑی طاقتوں کے لئے ایاصوفیہ  بڑی طاقتوں کے لیے ایک الارم۔

(جاری ہے)

بھی ہے  اور وہ اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہوئے سلطنت عثمانیہ دوبارہ بحال ضرور کریں گی  اور وہ اس کوشش میں ابھی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں
لہذا ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آیا صوفیہ ایک مسجد کا نام نہیں بلکہ مستقبل کے ایک منصوبہ بندی کا نام ھے جو ترک مسلمانوں  کی سوچ میں پایا جاتا ھے
 غیر مسلم طاقتوں کا خوف بجا بھی ہے کیوں کہ ترک دوبارہ اپنی علاقوں کو اپنے قبضہ کرنے کی کوشش میں بہت بڑی جنگ کا آغاز بھی کر سکتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :