جنوبی چین کا سمندر ایک نیا جنگی اکھاڑہ

بدھ 22 جولائی 2020

Altaf Satti

الطاف ستی

 جنوبی چین کے سمندر کے ایک طرف فلپاین جنوبی کوریا اور جاپان ہے جبکہ دوسری طرف تائیوان ویت نام اور ملائیشیا واقع ہیں جنوبی چین کے سمندر کے ایک طرف بحرلکاہل یعنی کے پیسیفک سمندر  اور دوسری طرف بحرہند لگتا ہے جنوبی  چین کے سمندرکو بحر ہند  سے کاٹنے والے ممالک میں ملائشیا ویتنام اور تھائی لینڈ ہیں  یہ سمندر اپنے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے علاوہ دفاعی حکمت عملی کے لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے
 اس سمندر میں ماہی گیری بھی بہت زیادہ مقدار میں کی جاتی ہے اور دنیا کے بہترین ماھی گیری والے دس ممالک میں فلپائن  اور ویتنام شامل ہیں یہی سے ماھی گیری  کر کے اپنے ملک کا زرمبادلہ کماتے ہیں
 جنوبی چین کے سمندر میں بیش بہا جذیرے بھی واقع ہیں جن میں سے اکثریت پر قبضہ چائنا کا  ہے لیکن خطے کے دوسرے ممالک بھی اس کا دعویٰ کرتے ہیں
چین کی پانچ بڑی بندرگاہوں میں سے تین بڑی بندرگاہیں جنوبی چین کے سمندر پر واقع ہیں دنیا کی 30 فیصد بحری تجارت بھی جنوبی چین کے سمندر سے ہو کر دوسرے ممالک کو جاتی ہے جب کہ جنوبی چین اپنی ضروریات کا 80 فیصد کا تیل اسی راستے سے ہی امپورٹ کرتا ہے چائنا کا دعویٰ ہے کہ جنوبی چین کا زیادہ حصہ اس کی ملکیت ہے اور یہاں کی قدرتی دولت بھی اسی کے حصے میں آتی ہے
جبکہ امریکہ کا دعویٰ اس کے برعکس ہے اور وہ اس دعوے کی نفی کرتا ہے اور اس نے سختی سے چائنہ کو کہا ہے کہ اس پر صرف چائنا کا حق نہیں بلکہ خطے کےدوسرے ممالک بھی اس کے حصہ دار ہیں اس  لئے ان قدرتی وسائل کی کشمکش میں امریکہ اور چین ایک دفعہ پھر جنوبی چین کے سمندر میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں امریکہ بھی اپنا بحری بیڑے کے ساتھ اس علاقے میں موجود ہے اور چائنا کی روز مرہ کی وارننگ بھی ساری دنیا کے سامنے ہے
امریکہ نے اپنے علاقائی اتحادی جن میں جاپان تائیوان ویتنام آسٹریلیا اور انڈیا شامل ہیں ان کو بھی متحرک کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ چین کی فوجی اور اقتصادی پیشقدمی کو روکا جاسکے اور اس کو نقصان پہنچایا جا سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین بھی ہمہ وقت ہرطرح کی جنگ کے لئے تیار ہے اس نے امریکہ کو وارننگ دی ہے کہ اگر کسی قسم کی جنگ کی گئی تو اس کا بھرپور جواب دیں گے اور وہ کسی ملک کو کبھی معاف نہیں کریں گے
بحر ہند اور جنوبی چین کو ملانے والی آبنائے ملاکہ پر بھی امریکہ بار بار انڈیا پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے بحری بیڑوں   سے ملاکہ میں  چین کے لیے مشکلات کھڑی کرے لیکن یہ کام انڈیا کے لئے اتنا آسان نہیں اور یہ کام اگر کیا گیا تو خطے میں بہت بڑی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے اور نتیجتاً انڈیا کو اس کا بھرپور نقصان بھی ہو سکتا ہے
جنوبی چین کو لے کر امریکہ اور چائنا ایک بار آمنے سامنے ہیں اور خطے میں جنگ کے بادل بہت بری طرح منڈلا رہے ہیں آئے روز اخبارات میں مختلف قسم کی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں اور چین اور امریکہ ایک دوسرے کو وارننگ دے رہے ہوتے ہیں اس طرح غالب امکان یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں جنوبی چین کا سمندر ایک بحری اکھاڑہ بن جائے گا اور جنگ کے معاملات طول پکڑ لے جائیں گے لیکن اگر جنوبی چین کے مسئلے کو لے کر یہ جنگ ایک دفعہ شروع ہوگئی تو یہ خطے کی ایک بہت بڑی جنگ ہو گی اور اس میں بہت سارے ممالک لپیٹ میں آئیں گے اور آہستہ آہستہ یہ جنگ یورپ تک بھی جا سکتی ہے
 شمالی کوریا جنوبی چین کے سمندر میں چائنا کا  واحد اتحادی محسوس ہو رہا ہے لیکن اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو پھر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور دنیا ایک بہت بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ کر تمام ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو سکتے ہیں دنیا دیکھ رہی ہے کہ چائنا ایک بہت بڑی اقتصادی طاقتور بن کر ابھر رہا ہے لیکن چین کا ایک گریٹر چین بننے کا خواب بھی پورا کرنے میں بہت بڑی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں
علاوہ ازیں اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ  جنگ اس خطے  سے ہوتے ہوتے گوادر پورٹ تک بھی آجائے اور پاکستان میں بھی اس میں شامل ہو جائے
ہمارے فوجی ماہرین بھی اس خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کو بغور مطالعہ بھی کر رہے ہوں گے اور پس پردہ ان کی تیاریوں میں لگے بھی ہوں گے مگر امریکہ کو ایک بات نہیں بھولنی چاہیے کہ چائنا ایک اکنامیکل طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی فوجی طاقت کا مالک بھی ہے اور یہ دنیا کو بہت بڑے سرپرائز دینے کی طاقت رکھتا ھے
 لہذا امریکہ کو چاہیے کہ جنگی جنون کی آڑ میں دنیا کے امن کو برباد نہ کرے اور ہوش مندی سے کام لے
یہ بحری جنگ ایٹمی جنگ میں بھی بدل سکتی ھے اگر ایسا ہوا تو اس کا خمیازہ پوری بنی نوح انسان بھگتے گی
غالب امکان تو یہی ہے کہ اگر امریکہ نے یہ جنگ چھیڑی تو چائنا چپ کر کے نہیں بیٹھے گا اور اس کا بھرپور جواب دے گا  جس سے بہت ساری انسانی جانوں کے ہلاک ہونے کا بھی خدشہ ہے
بحرحال انسان ہونے کے ناطے ہم تو یہ امید کر سکتے ہیں کہ امریکہ  ہوش کے ناخن لے گا اور اس جنگ میں نہیں کودے  گا لیکن طاقت کا نشہ ایک عجیب نیچا ہوتا ہے اور اس میں انسان بہت آگے نکل جاتا ہے امریکہ کے طاقت کے نشے کی وجہ سے بہت سے ممالک پہلے ہی برباد ہو چکے ہیں اور کئی لاکھ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں
 نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو مگر میری یہ رائے ہے کہ امریکہ اپنی سیاسی اور اقتصادی حیثیت کھو چکا ہے اور وہ اس قابل نہیں کہ وہ چین کا مقابلہ کر سکیں
اور جنگ ہونے کی صورت میں امریکہ کو ایک ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے جس سے وہ کئی سال پیچھے جا سکتا ہے اور امریکہ ریاست ہائے متحدہ کے اسٹیٹس کو بھی برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہو سکتا  لہذا اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :