انسانیت

پیر 23 مارچ 2020

Aman Ullah

امان اللہ

لفظ انسانیت جو کہ عام الفاظ میں دو لفظوں سے مرتب شدہ ہے ۔ ایک انسان اور دوسرا اسکی نیت تحریر کرنے کا اصل مقصد اس بنی نوع انسان کی نیت کو بھانپتاہے ۔ اور انسان کی انسانیت کا شک اس وضاحت سے جوڑکر رکھا جاتا ہے جب اس کی نیت صاف اور ارادے پاک ہوں ۔ اگر اسکی نیت میں زرا سی جنبش پا ئی جائے تو یہ معاشرہ ا سے انسانیت نہیں درندگی کا نام دے کر چھوڑتا نہیں اس آدمی کو درندگی کی آخری حد تک پہنچانے میں اس کی بھر پور مدد کرتا ہے۔

اس معاشرے نے انسانیت کے معیار کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ اب اس معاشرے میں انسان وہ ہے جو ایک طور پر معاشرے کی جڑوں میں دیمک کی طرح براجمان ہو اور اس کے پاس ہر قسم کی قانو نی ا ور غیر قانونی طاقتیں ہوں اور اس سمیت انسانیت اس کے رہن سہن کے معیار اسکی دولت وجائیداد اور عام لوگوں کو نالی میں پلتے ہوئے کیڑے اور ان کی کسی قسم کی عزت اور حیا ء کو خاطر میں نہ لاناہے ۔

(جاری ہے)

ویسے تو انسان اشرف المخلوقات اور اس کے اعلیٰ رتبہ و مقام و منزلت کی وجہ سے کہا گیاہے۔ لیکن آج کے معاشرے میں انسانیت کا یہ عالم ہے ۔ بیٹا باپ کو اچھا نہیں سمجھتا اور بیٹی ماں کو اگر بیٹا لکھ پڑھ کر ایک بہت بڑا آفیسر بن جاتا ہے تو وہ اپنے غریب باپ کو اپنے دوستوں کے سامنے باپ نہیں کہتا بلکہ ا سے نوکر کا نام دے دیتا ہے اس لیے کہ اس کے دوستوں کے سامنے اس کی توہین نہ ہو جائے کہ اس کا باپ ایک سادہ اور ان پڑھ انسان ہے جب ایک ڈاکٹر ، ڈاکٹر بننے سے پہلے یہ نیت اور عزم کرتا ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی مدد کرے گا ۔

لیکن جب آدھی رات کو کسی شخص کو درد یا تکلیف ہوتی ہے تو ڈاکٹر اپنے بستر سے نہیں اٹھتاکہ کہیں اس کی نیند میں خلل نہ پڑجائے ۔ جب جاگیر دار کے پاس کوئی غریب جا تاہے تو وہ اس کو نیچ اور نالی کا کیڑ ا سمجھ کر اس کو نیچے بیٹھتاہے کہ وہ اس کی برابری کا نہیں یہ انسانیت نہیں در حقیت یہ تمام روپ درندگی اور شیطانی کے اجزائے ترکیبی ہیں ۔ انسانیت کو چانچنے والے ہم کون ہیں ہم وہی انسان ہیں
جو کسی کی اچھی بات کہنا پر اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے باہر کردیتے ہیں ۔

کہ کہیں ہمارے دماغ میں کوئی بہتری کی آمیزش نہ ہو جائے اگر کوئی شخص کسی قسم کا اچھا کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو ہم یہ سوچ کر اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ کہ معاشرہ کیا کہے گا کیونکہ اس معاشرے میں اس قسم کی انسانیت والے انسان بستے ہیں جن کا شروع میں اچھا الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے تو کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسانیت کو صرف پڑھنے کی حد تک نہ رکھا جائے اس کے مطلب اور اسکی اہمیت کو سمجھا جائے ۔

اور اسے تمام معاشرے پر مکمل طور پر لاگو کیا جائے ایک دوسرے کی ضروریات اور لا چاریوں کا احساس کرنا بھی انسانیت ہے حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جسکے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ ہوں ۔ان تمام باتو ں کا اصل مقصد انسانیت اور درندگی میں فرق کرناہے۔ آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ صرف اصل انسانیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور کسی قسم کا خود ساختہ انسانی معیار نہ بنایا جائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔۔۔۔۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :