موٹروے پر سفر کو کیسے محفوظ بنایا جائے

بدھ 16 ستمبر 2020

Aman Ullah

امان اللہ

سیالکوٹ موٹر وے کو لاہور سے ملانے والی رنگ روڈ پر ہونے والے دلغراش واقعے کی گونج نہ صرف پورے ملک بلکہ پوری دینا میں رہائش پذیر پاکستانیوں کے لیے بہت بڑے صدمے اور افسوس کا باعث ہے کل رات امریکہ سے میرے دوست رمضان صاحب کا فون آیا کیونکہ رمصان صاحب میرے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ میرے پیر بھائی بھی ہیں ہم دونوں 2005میں پیر مظہر حسین صاحب کے مرید ایک ساتھ ہوئے وہ جب بھی دربار منگانی شریف تشریف لاتے تو میرے گاؤں چک نمبر 175میں مجھے سے ملنے ضرور آتے خیر وہ پہلے بھی مجھے کالز وغیرہ کرتے رہتے تھے لیکن کل رات جب انہوں نے مجھے کال کی تو وہ افسردہ بھی تھا اور خوفزدہ بھی ۔

پوچھنے لگا ۔۔۔امان اللہ صاحب !اب ہم پاکستان آئیں تو موٹروے پر بچوں کے ساتھ سفر کیسے کریں ؟پاکستان میں اسلحہ لائسنس لینے کا طریقہ کار ہے ؟کیا یہاں آرمز پرمٹ مل جاتا ہے ؟ میں نے کہا یہ پاکستان ہے امریکہ نہیں کہ اپ اسلحہ کی دکان پر گئے ، ڈرائیونگ لائسنس یا کوئی اور فوٹو آئی ڈی دکھائی اور بندوق ، رائفل یا پستول خریدلی ، یہاں اسلحہ خریدنے سے لائسنس لیا جاتا ہے اور آپ کیونکہ پنجاب کے رہائشی ہیں لہذا آپ کو لائسنس بھی پنجاب سے ہی لینا ہوگااور وہ فی الحال بند ہیں پھر اس سانحے پر لمبی گفتگو ہوئی جو صرف افسوس ، ملال اور غم ، غصہ کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔

(جاری ہے)

یہ ایک دل ہلا دینے والا واقعہ ہے ۔ لیکن اگر مجھے معاف کردیا جائے تو میں کہوں گا کہ یہ سارا شور و غوغا یہ ساراکہرام اعر حکومت کی ساری پھرتیاں چار دن کی ہیں ، متاثرہ خاتون واپس فرانس چلی جائے گی ، مجرموں کو اؤل تو پولیس مقابلے میں ماردیا جائے گا ، یہ بھی ممکن ہے کہ جدید سائنسی شواہد کی بنیاد پر انتہائی تیز رفتاری سے چلائے جانے والے مقدمے کے بعد واقعی سزا مل جائے ، لیکن کیا یہ سب کچھ کافی ہے؟ کیا اس سے اس جیسے واقعات کو روکا جاسکے گا ؟ کیا تھوڑے دنوں بعد ہمیں من حیث القوم یہ یاد بھی رہے گا کہ کیا ہوا تھا ؟ درجنوں نہیں ہزارو ں ایسے واقعات ہیں جب ہوئے تو چاروں طرف کہرام مچ گیا ، لیکن تھوڑے عرصے بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہت اکہ کیا ہوا تھا ، سانحہ سائیوال ، سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو سر عام ڈنڈے مار مار کر جان سے مار دینے کا واقعہ ، اے ٹی ایم میں کیمرے کو منہ چڑانے والے فاتر العقل کی پویس کی تحویل میں موت، وڈیرو ں کے بچوں کے قتل کے مقدمات اور بے شمار ایسے واقعات جن کا کوئی منطقی نتیجہ نکلنا چائیے تھا ، سسٹم کو درست ہونا چائیے تھا ، اور آئندہ کے لیے اس کا حل نکلنا چائیے تھا ، لیکن صد افسوس ریاست ایسا کرنے میں قطعا ناکام رہی ، ڈاکیٹی کے دوران گھر میں مردوں کی عدم موجودگی یا کئی مواقع پر ان کی موجودگی میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی گونج کبھی کبھار سنائی دیتی رہتی ہیں ، تاہم اس قسم کے بیشتر واقعات میں متاثرہ خاندان یہ سوچ کر کہ مالی نقصان تو جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا اب معاشرے میں ایک عزت بچی ہوئی ہے وہ بھی خراب نہ ہوجائے لہذا وہ ڈکیٹی کے واقعے میں سے زیادتی کا پہلو بتاتے ہی نہیں اور ایسے بے شمار واقعاتہمارے سامنے ہی نہیں آتے ، اس حوالے سے یہ کوئی حیران کن واقعہ نہیں ہے تاہم وقت کی ضرورت ہے کہ اس اندوہناک اور المناک واقعے کو بنیاد بنا کر قانون سازی میں مناسب ترامیم قانون شہادت میں جدید سائنسی طریقہ کار کی شمولیت اور بطور گواہی قانونی حیثیت ، دوران مقدمہ مختلف قانونی موشگافیوں اور طوالت کے حربوں سے نجات کا طریقہ کار بھی طے کرلیا جائے اب پرانا قانونان تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر اور عاری ہے ، جو فی الوقت درکار ہیں (brainchild)موٹرویزکو موجودہ حکومت میاں نواز شریف کا منصوبہ خیال سمجھتی ہے اور اس کے بارے میں اگر کچھ کرتی بھی ہے تو نہایت بے دلی اور مجبوری کے عالم میں کرتی ہے موٹرویز کے معاملے مین کوئی کام خوشی سے کرنا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مشکل ہے اندازہ کریں دو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں شام کوٹ (خانیوال ) انٹرچینج پر ایک طرف موٹروے پر چڑھنے اور اترنے کے لیے ٹال ٹیکس بوتھ ہی نہیں بن پائے ، یہ تو صرف ایک مثال تھی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ موٹروے کے بعض سیکشنز پر ارگرد کے گاؤں والوں نے اپنی سہولت کے لیے آرپار جانے کے لیے جگہ جگہ سے کاٹی (Fence)غرض سے دونون اطراف میں لگی ہوئی باڑ پر یہ باڑ M-4اور اسلام آباد جانیوالی M-3 تک کاٹی ہے ملتان سے لاہور جانیوالی درجنوں جگہ سے کٹی ہوئی ہے ارگرددیہاتوں کے نوجوان کو کئی بار میں نے خودموٹروے کے کنارے ہارڈ سولڈر پر پکنک مناتے ہوئے دیکھا ہے ، موٹروے پر کئی جگہ پر مجھے کتوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ، اور کئی جگہوں پر گاڑیوں سے ٹکرا کر مرے کتے پڑ ے دیکھے ہیں ظاہر ہے یہ کتے لوہے کی تار والی باڑ پھیلانگ کر تو نہیں آتے ، باڑ جگہ جگہ سے کٹی ہوئی ہے لہذا کتے بھی موٹروے پر گھومتے پھرتے ہیں اور ارگرد کے لوگ بھی ، اب جرائم پیشہ افراد کو موٹروے پر آنے سے کون روک سکتا ہے ؟ موٹروے پولیس کا کام صرف چلان کرنا ہی نہیں بلکہ موڑوے پر محفوظ سفر کو یقینی بنانا ہے ، دونوں اطراف پر لگی باڑ اس محفوظ سفر کا ایک لازمہ ہے ، اور اس کی حفاظت بھی موٹروے پویس کے فرائض میں شامل ہے اس باڑ کی حفاظت کے لیے باقاعدہ سخت قانون ہونا چاہیے اور اسے کاٹنے ، اتارنے یا نقصان پہنچانے کی صورت میں سخت سے سخت سزا اور جرمانہ ہونا چاہیے ، جہاں سے باڑ کٹے وہاں کے نزدیکی گاؤں کے زمہ دار افراد کو اس کا جواب دہ ہونا چائیے ، اور کسی عام شہری کو خواہ اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ ہویا نہ ہو موٹروے پر آنے کی صورت میں سزا ہونی چائیے ، لیکن صرف یہی کافی نہیں گذشتہ کچھ عرصہ ملتان تا عبدالحکیم اور ملتان تا سکھر موٹرویز چالو ہوئی ہیں ، خیر پہلے تو یہ دونوں سکیشن چالو ہی بڑی مشکل سے ہوئے ہیں اوپر سے مزید زیادتی یہ ہوئی کہ دونوں سکیشنز پر موٹروے کی نفری ہی پوری نہیں ہے ، ہم موٹروے پر جو ٹال ٹیکس ہیں وہ موٹروے استعمال کرنے کے علاوہ ان تمام سہولیت کے لیے ادا کیا جاتا ہے جن سے موٹروے پر استفادہ کرتے ہیں ، سروس اریاز، سائیڈوں پر لگی باڑ ، موٹروے پویس کی موجودگی اس سارے پیکج کا حصہ ہے ، حکومت نے ابھی چند روز قبل اس ٹال ٹیکس میں دس فیصد اضافہ کیاہے لیکن محفوظ سفر اب خواب بنتا جارہاہے ، وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کو سیاسی مخالفین کے لتے لینے سے فرصت نہیں ملتی اور موٹروے کے حفاظتی نظام کے اپنے کپڑے اترے پڑے ہیں سرکار میں ہر وزیر کو باقی ہر کام آتا ہے صرف اپنے محکمے کا کام نہیں حالانکہ کرنیوالے کاموں کی ایک طویل فہرست ا ن کی نظر کرم کی منٹظر ہے ، دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ملک و قوم کے لیے اچھے اقدامات کرنے کی توفیق دے ، آمین ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :