استاد کو عزت دو

بدھ 21 اکتوبر 2020

Aman Ullah

امان اللہ

استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو
یہ توہر دور میں انمول رہاہے
مولوی میر حسن علامہ اقبال کے استاد تھے ۔ علامہ اقبال کو جب انگریز حکومت نے سر کا خطاب دینا چاہا تو اقبال نے انکار کیا کہ پہلے میرے استاد کوشمس العلماء کا خطاب دیا جائے جس پر اس وقت کی حکومت نے کہا آپ نے خود کتابیں لکھی ہیں اور بڑے بڑے مقالے بھی پیش کیے ہیں لیکن آپ کے استاد کا ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے یہ سن کر اقبال گویا ہوئے میرے استاد کا سب سے بڑا کارنامہ میں خود ہوں میرے استاد کی محنت نہ ہوتی تو شاید آج آپ مجھے سر کا خطاب نہ دیتے یہ ان کی شبابہ روز محنت ہی کا نتیجہ ہے جو آج میں اس مقام پر کھڑاہوں ۔

انگریز حکومت نے یہ سنتے ہی علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیا ۔

(جاری ہے)

استاد کے لیے ایسی عزت اور محبت اس وقت جاگتی ہے جب کامیابی کے لیے سفر کا آغاز ایک شفیق اور دانا استاد کی انگلی پکڑ کر کیا جائے ۔ کامیابی کے پیچھے لازمی طور پر کسی نہ کسی بڑے آدمی کا ہاتھ موجود ہوتاہے اور استاد سے بڑھ کر کوئی بڑا آدمی نہیں ہے جن قوموں نے استاد کا احترام کیا ہے انہی نے ہی ترقی پائی ہے ایک دفعہ ابن انشاء ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی کے استاد سے ملنے گے ملاقات کے اختتام پر وہ استاد ابن انشاء کو الوداع کرنے کے لیے یونیورسٹی کے باہری صحن تک چل پڑا، دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پرکھڑے ہوگے ، اس دوران ابن انشاء نے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلبہ اچھل اچھل کر گزرہے ہیں ابن انشاء اجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ محترم ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر کیو ں گزر رہا ہے ؟انھوں نے بتا یا کہ ہمارا سایہ پچھلی جانب ہے اور کوئی طالب علم نہیں چاہتا کہ اس کے پاؤ ں اس کے استاد کے سایہ پر بھی نہ پڑیں ، اس لیے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر گزررہا ہے امریکہ میں تین طرح کے لوگوں کو vip کا درجہ دیا جاتا ہے ۔

۱۔معذور ۲۔ سائنسدان ۳۔ ٹیچر فرانس کی عدالت میں ٹیچر کے سوا کسی کو کرسی پیش نہیں کی جاتی اگر دی جاتی ہے تو ٹیچر کو جاپان میں پولیس کو ٹیچر کی گرفتاری کے لیے پہلے حکومت سے پہلے خصوصی اجازت نامہ لینا پڑتا ہے کوریا میں کوئی بھی ٹیچر اپنا کارڈ دکھا کر ان تمام سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو ایم این ایز اور ایم پی اے کو میسر ہوتی ہیں جرمنی میں اساتذہ کو سب سے زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے پچھلے دنوں ججز، ڈاکٹر ، انجنئیر نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کردیا یہ خبر جرمنی کی چانسلر تک پہنچی تو جرمن چانسلر جس کا نام انجیلا مورکل تھا اس نے بڑا ہی خوبصورت جواب دیا ، میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کر دوں جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے اور ہمارے پاکستان میں ٹیچر کی وہ تذلیل کی جاتی ہے کہ شیطان بھی پناہ مانگے ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ اہل علم ودانش کی نا قدری ہے اورجس ملک میں ع؛لم اور عالم کی قدر نہیں ہوتی ، وہاں غنڈے ، بد معاش ، ڈاکو ، لٹیرے ہی پیدا ہوتے ہیں استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قراردیا گیا ہے کیوں کہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تربیت کی زمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہے کیونکہ استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں جینا اور رہنا سہنا سیکھاتا ہے اورکتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتاہے گویا استاد معلم یا مدرس کی تعریف اگر ان الفاظ میں کی جائے تو بے جانہ ہوگا ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن بناتا ہے پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے استاد معمار بھی ہے اور کسان بھی ہے ، استاد واجب الاحترام بھی ہے ۔


ایک زمانہ تھا جب طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل کرتے تھے سالہاسال ملکوں ملکوں گھومتے تھے ، گھر بار سے دور رہ کر اپنے پیاسے من کو سیراب کرتے تھے استادوں کی مار کھا تے تھے ڈانٹ بھگتاتے اور سزاجھیلتے تھے تب جا کر نگینہ بنتے تھے مگر مجال ہے کہ استاد کے اگے آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتے ، ڈر کے مارے گھر بھی نہیں بتاتے تھے کہ استاد نے آج مارا ہے کیونکہ گھر سے اور سزاملتی تھی کہ استاد نے اچھا کیا ہے اورمارتا آپ کو استادکے قدموں میں بیٹھنا اور استاد کی باتوں کو خاموشی سے سننا اور استاد کے سامنے چوں تک نہ کرنا ہائے کیا وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی ترقی کی منزلیں طے کرتاچلا گیا ، اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور ادب ، آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے چلے گئے چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں استاد بنناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے موجودہ دور میں استاد اپنی عزت بچاتا ہے کہ کئی بچے کو ماراتو گربیان تک نہ پکڑ لے اور مارا تو آج کا شوشل میڈیا ہے وہ نہیں چھوڑے گا ، جب سے مار نہیں پیار آیا استا د کامقام وعزت کم ہو کر رہ گی ہے پہلے دور میں استادبچے کو مارتا تو والدین کہتے تھے ٹھیک کیا استا دنے اور مارنا تھا اور آج کے والدین کہتے ہیں استاد کی ہمت کیسے ہوئی میرے بچے کو ہاتھ لگانے کی موجودہ دور کا طالب علم استاد کو عزت دینے کا روادار نہیں ہے وہ استاد کو ایک تنخواہ دار اور ملازم سمجھتا ہے جس کی عزت کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتا ، اور بچوں کی اس سوچ کے سب سے بڑے زمہ دار خود والدین بھی ہیں ، جو بچپن سے ہی اپنے بچوں کے زہنوں میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ ہمار اتنخواہ دار ملازم ہے لہذا انھیں اتنی ہی عزت دو اوروں کو دی جاتی ہے ، حقیقتا موجودہ دور کا ٹیوشن سسٹم اور اکیڈمی کلچر نے بھی استاد کی عزت کو کم کردیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ جو والدین بچوں کے لیے ٹیوشن رکھتے ہیں تو وہ بچوں کو کہتے ہیں کہ استاد نے کیا پڑھایا ہے وہ فیس نہیں لیتا تو بچے کے ذہین میں آجاتا ہے کہ استاد فیس لیتا ہے احسان نہیں کرات یہی وہ پوائنٹ ہے جو استاد کی تذلیل کرتا ہے اسلام میں جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا جاتا ہے وہاں اسلام کی نظر میں استاد کو بھی معززمقام حاصل ہے یہاں میں امان اللہ ایک پاکستانی ہونے کہ ناطے اپنی پاکستانی قوم اور موجودہ حکومت جس نے ٹیچر کی عزت کو نیلام کردیا ہے خاص طور پر پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس صاحب سے کہوں گا خدارا استاد کو اس دو جس کی بدولت آج آپ وزیر ہیں استاد کو عزت دے کر ہم اپنا نام اور اپنے ملک کا نام روشن کرسکتے دنیا میں علم کی قدر اس وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو گا ، دنیا میں وہی عزت ومقام حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے استادوں کو دی اس لیے کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے با ادب ۔

۔با نصیب ۔۔بے ادب ۔۔۔۔بے نصیب

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :