بچے من کے سچے

اتوار 30 اگست 2020

Aman Ullah

امان اللہ

بچے من کے سچے ہر دور کی حقیقت بھی ہے اور آج کی سب سے بڑی سچائی بھی ، یعنی بچے من کے سچے ہی ہوتے ہیں سوال یہ ہے کہ بچہ کسے کہتے ہیں جواب یہ ملتاہے کہ جو دوسروں کی مدد کے محتاج ہوں ، وہی بچے کہلاتے ہیں ایک من کا سچا بچہ ہم سے پوچھتاہے کہ وہ نانی اماں جو چار سال کے نواسے کو یہ کہیں کہ میرے سمارٹ فون پر لاک لگ گیا ہے زرایہ کھول دو کیا نانی بھی بچہ پارٹی میں شامل ہیں؟ اب وہ چار سال کا بچہ جو جھٹ سے نانی اماں کے فون کا لاک کھول کردے تو کیا وہ بچہ آج کے دور میں بھی بچہ کہلائے گا یہ عنوان ہی روز روشن کی طرح سچ اورحق ہے کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں تبھی تو من کے سچے ایک بچے نے اپنے والدین سے کہاتھا چونکہ آپ نے مجھے اپنی شادی مین نہیں بلایا تھا اس لیے جب میری شادی ہوگی تو میں بھی اپنی شادی میں آپ کوانوائیٹ نہیں کرونگا ۔

(جاری ہے)

اب ایک سچا واقعہ بھی پڑھیئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنھا کے دور میں وہ ایک کم سن بچی تھی جسے ماں نے کہا تھا کہ دودھ میں پانی ملا دو مگر بچی نے دودھ میں پانی ملانے سے انکار کردیا ماں نے پھر اصرار کیا کہ پانی ملاؤ کہ کونسا اس وقت خلیفہ دیکھ رہا ہے تو اس معصوم بچی نے تا ریخی جملہ کہاتھا کہ اماں ٹھیک ہے کہ ہمیں خلیفہ نہیں دیکھ رہا مگر اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے ایک گھر کے دروازے پر لگی ڈور بیل بجی تو والد نے اس بچے کو کہا کہ کوئی میرا پوچھے تو کہنا کہ ابو گھر پر نہیں ہیں بچہ باہر گیا مہمان نے ابو کی موجودگی کا پوچھا تو من کے سچے بچے نے کہا کہ ابو کہہ رہے ہیں میں گھر نہیں ہوں ، ایک باپ نے اپنے آٹھ اور دس سالہ دونوں بچوں سے کہا کہ اب آپ بڑے ہوگئے ہیں اس لیے اللہ کا حکم ہے کہ اب آب ایک چار پائی پر نہیں سو سکتے، آئندہ آپ الگ الگ چارپائی پر سویا کریں چھوٹا بیٹا فورابولا تو پھر آپ امی جان کے ساتھ ایک بیڈ پر کیوں سوتے ہیں واقعات اتنے ہیں کہ جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں ان واقعات کو شروع کردوں تو شاید میں انہیں بیان کرتے کرتے تھک جاؤں گا اور ایک نہیں بلکہ کئی دن گزر جائیں مگر من کے سچے بچوں کے کا رنامے ختم نہ ہو پائیں ،اب ایک اور سچا واقعہ زرا غور فرمائیں !دفتر سے آئے غصے سے بھرے ہوئے ایک خاوند نے گھر کی بگڑی حالت دیکھ کر لال پیلا ہوتے ہوئے بیوی سے پوچھا کہ تم سارادن گھر میں کیا کرتی ہو؟کہ گھر کی حالت بہت خراب ہے بیوی نے جواب دیا کہ میری طبیعت سخت خراب تھی ماں کے ساتھ بیٹھے ہوئے پانچ سالہ بچے من کے سچے نے باپ کو کہا کہ امی سارا دن ، جیو پر ڈرامے دیکھتی ہیں ، فیس بک اور واٹس ایپ پر لگی رہتی اور اپنی سیلفیاں بھی لیتی رہتی ہیں یہاں ایک تاریخی واقعہ بیان کرنا چاہوں گا ایک قافلے کو ڈاکووں نے پکڑ لیا اوران سے مال اسباب چھین لیا ۔

اس قافلے میں ایک من کا سچا مصوم بچہ بھی تھا اس کی تلاشی لی گئی تو اس سے کچھ نہ نکلا بچے من کے سچے کا کہنا تھا کہ اس کے پاس درہم ہیں ، ڈاکو وں کے سردار کے پاس بچے کو لایا گیا ، کہ یہ کہتا ہے کہ میرے پاس درہم ہیں ، جبکہ اس پاس کچھ نہیں مل رہا ہے ، بچے من کے سچے نے قمیص اتار کر دکھائی ، جس کے اندر درہم سلے ہوئے تھے ، بچے نے کہا کہ یہ میری ماں نے سئیے تھے اور کہاتھاکہ کسی سے جھوٹ نہیں بولنا ،ڈاکووں کا سردار بچے کی سچائی دیکھ کر توبہ تائب ہوااور برے کاموں سے توبہ کر لی وہ بچہ شیخ عبدالقادرجیلانی تھے ۔

اب موجودہ دور میں ضرورت اس امر کی ہے بچے کو سچ بو لنے دیا جائے اسے بتایا جائے کہ اللہ سچ بولنے کا حکم دیتے ہیں اور سچوں کو اپنا دوست کہتے ہیں بچوں کو سچ بولنے پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کی جائے سچ بولنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں بچے من کے سچے ہوتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :