ویل چیئر والا باباتیری عظمت کو سلام

جمعہ 27 نومبر 2020

Aman Ullah

امان اللہ

ایسا نہیں کہ وہ فرشتہ تھا انسان تھا!گوشت پوست کا بنا ہوا!مقصد کے حصول کے لیے جو اس نے طریقہ اپنایا اس سے لوگوں کو اختلاف بھی رہا ۔ اسکی زبان پر بھی ، اس کے انداز پر بھی اعتراضات رہے !مگر ایک صفت ایسی تھی کہ سب لوگوں کے اعتراضات خود شرمندہ خاک ہوگے وہ صفت تھی حب رسول اللہﷺ!موج موج !اس قدر کہ اس بابا نے کوئی مصلحت دیکھی نہ ہی کوئی خوف لا حق ہوا ۔

دنیاوی مال و متاع تھا نہ منصب !اس کا جسم بھی پورا نہ تھا وہ تو ٹانگوں سے بھی معذور ہوچکا تھالیکن اس نے رسول اللہ ﷺ کی محبت کا جھنڈا اٹھا یا ۔

(جاری ہے)

اور لوگوں کو آواز دی ، یہ حب رسولﷺ کا معجزہ تھا ، زندہ معجزہ !کہ لوگ اس کے گرد اکٹھے ہوگے !فوج در فوج !سینکڑوں ، لاکھوں کی تعدا دمیں !اس نے ثابت کیا کہ حب ﷺسے بڑھ کر کوئی شے ایک مسلمان کے لیے اس دنیا میں زیادہ قیمتی نہیں ہوسکتی !ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے اس جسمانی لحاظ سے معذور بابا اس تہی دست بابا نے جس کے پاس محل تھا نہ جاگیر نہ کارخانے نہ عہدہ نہ سیاسی چھتری نہ بیرونی پشت پناہی !جو اچار سے روٹی بھی کھا لیتا تھا لوگوں کو بتا یا کہ رسول ﷺکی محبت کے بغیر یہ زندگی مٹی کے ایک زرے برابر بھی نہیں !عزت اللہ اور اس کے رسولﷺکی ہے کسی باشاہ ، کسی وزیر ، کسی صدر ، کسی امیر ، کسی سفیر کی نہیں ، اس نے آواز لگائی اور رسولﷺکے شیدائی اس سے آملے، دنیاداروں نے بہت باتیں بنائیں ، کسی نے کہا حکومت گرانا چاہتاہے ، کسی نے کہاحکومت بچانا چاہتا ہے ، کسی نے کہاں فلاں جماعت پشت پر ہے مگر اسے کسی افترا، کسی طعنے کی پرواہ نہیں تھی اپنے کسی دنیا وی یا سیاسی فائدے کے لیے کسی گروہ کسی جماعت ، کسی ادارے نے اس کی حمایت کی اترایا نہیں !جس مقصد کے لیے اٹھا تھا ، اسے ایک لمحے کے لیے بھی نہ بھولا ، بخار سے پنڈا دہکتا ، سلگتا ، بھڑکتا رہا ، سانس اٹکتا رہا ، یہاں تک کہ اس کی زندگی اسم محمدﷺ کی حرمت پر قربا ن ہوگی ، خلقت چہار دانگ عالم سے امڈ کر آئی ، اس بابا فقیر کو رخصت کرنے بوڑھے جوان بچے اور تندرست لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے عورتیں جنازے کے راستے پر چھتوں سے پھول نچاور کرتی رہیں ، کوئی غیرمرئی طاقت مخلوق کو کھینچ کھینچ کر لارہی تھی ، بسیں پکڑی گئیں ، نہ پٹواریوں ، تھانیداروں اور تحصیلوں داروں کی ڈیویٹاں لگائی گئیں ، قیمے والے نان کھلائے گئے نہ بریانیا ں پیش کی گئیں ، یہ بھوکے پیاسے تھے مگر کیسے بھوکے پیاسے تھے کہ بھوک اور پیاس کی پرواہ نہ تھی ، میلوں ُٰڈ ُُُُُُُُُُُُُُُُُُٰٰٓٓٓپیدل چلے مگر تھک کر کوئی بیٹھا نہ واپس ہوا!کوئی بس پرآیا تو کوئی سوزکی سے لٹک کر کوئی کسی ٹرک پر تو کوئی سائیکل چلاتا ہو ا، کسی کے پاس شب بسری کا انتظام تھا تو کسی کے پاس وہ بھی نہ تھا، کسی کے پاس جیب میں سفر کا خرچ تھاتو کسی کے پاس ایک روپیہ بھی نہ تھا ، مگر ایک دولت سب کے پاس تھی !حب رسولﷺکی ، مجنوں پر لوگ ہنستے تھے کہ اتنی بھی کیا محبت کہ اپنا ہوش نہیں ، محبت کیا ہے ،یہ اس کو علم ہوتا ہے جس کے دل میں محبت جاگزین ہو ،وہ جو کیڑے نکال رہے ہیں ، افق افق سے امڈ کر جناز ے میں شامل ہونے والوں کو سادہ لوح کہہ رہے ہیں ، انہیں کیا معلوم محبت کیا ہے ؟ اور محبت بھی رسول اللہﷺ سے ، انہیں کیا خبر یہ کیسا نشہ ہے ، تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ، کتنوں پر تلوار اٹھا کر کہا گیا کہ محمد ﷺ کو ماننے سے انکار کردو ، بچ جاؤ گے ، گردنیں کٹ گئیں مگر چھوڑنے کا کسی نے سوچا بھی نہیں ، ویل چئیر والے بابا کو حضور ﷺ نے اپنی چادر مبارک میں ڈھانپ لیا ، لاکھوں کے جم غفیر نے دست بستہ کھڑے ہو کر با وضو حالت میں اس کے لیے سفارش کی روئے !گڑگڑائے ! ساری منطقیں اور ساری بحثیں سارے فقہی جھگڑے ، مکاتیب فکر کے سارے اختلاف ایک مقام پر آکر ختم ہو جاتے ہیں ، جب آنکھ بھیگی ہوئی ہو تو اختلافات نہیں دیکھتی ، اسے صرف محبت دکھائی دیتی ہے ، امام مالک کے خاک مد ینہ پر چلتے ہوئے جوتے نہیں پہنے ، کسی منطق !کیسا فتویٰ!وقت کا حکمران ہشام بن عبدالمالک بیت اللہ کے طواف کے دوران حجراسود کو بوسہ دینا چاہتاہے ہجوم اتنا ہے کہ نہیں دے سکتا ! پھر ایک شخص آتا ہے اور بے پناہ ہجوم اس کے لیے راستہ چھوڑ دیتا ہے واقعہ طویل ہے اور کالم کا دامن تنگ ، یہ نواسہ رسول ﷺ کے فرزند امام زین العابدین ہیں ، جس نام سے نسبت ہے اس کے سامنے حکمرانوں اور سلطنتوں کی کیا حیثیت ! ویل چیئر ولا بابا دنیا میں خالی ہاتھ رہا مگر جاتے ہوئے اس کے پاس بہت قیمتی زاد راہ تھا وہ دولت تھی جس کی ہر مسلمان خواہش کرتا ہے پر ملتی اسے ہے جو خاتم النبیین ﷺ کا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی دولت سے مالامال کرے اور آقا ﷺ کے جھنڈے کے سائے میں جگہ عطا فرمائیں ، آمین۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :