جھنگ محبت کی سر زمین ۔۔۔کسی مسیحا کی منتظر

ہفتہ 20 مارچ 2021

Aman Ullah

امان اللہ

جھنگ صدیوں سے زرخیز دریائی علاقہ ہونے کے باوجود پسماندہ چلا آرہا ہے اور آج بھی جھنگ کا شمار پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتاہے جھنگ میں آج بھی کوئی انڈسٹری ، کوئی انجینئرنگ میڈیکل یا زرعی کالج نہیں ، پورے ضلع جھنگ میں تعلیم صحت اور روزگار کی صورت حال نا گفتہ بہ ہے جھنگ جو حریت پسندوں ، دانشمندوں ، سائنسدانوں اور انسانیت سے پیار محبت کرنے والے انسانوں کیسر زمین ہے ، انگریزوں نے ایک ٹر م ؛جانگلی ؛ استعمال کیا ، اگر کے رہنے والے جانگلی ہیں تو پھر 29 جنوری 1926کو پیدا ہوکر جھنگ کے ٹاٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹرعبدالسلام دنیا کا سب سے بڑاسائنسدان کیسے بن گیا ؟جنہیں دنیا کی معروف32 یونیورسیٹیوں نے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری بھی دی ، انگر یز کی جھنگ سے کیا دشمنی تھی ؟اس بات کو جاننے کے لیے پس منظر میں جانا ضروری ہے ، جھنگ محض ایک ضلع کانام نہیں ایک خطے کانام ہے۔

(جاری ہے)


جسے ساندل بار کہا جاتا ہے ، اس میں فیصل آباد ، ٹوبہ خاینوال اور سائیوال کے علاقے آتے ہیں ، جھنگ دریائی سر زمین ہے اور اس خطے میں جہلم اور چناب بہتے ہیں ، جہلم اور چناب کی مٹی نے اس خطے کو سرائیکی وسیب کا بہترین میدانی اور تقافتی خطہ بنا دیا البتہ اس کا کچھ حصہ صحرائے تھل میں آجاتا ہے ، جھنگ تاریخی ، ثقافتی ، جغرافی اور انتظامی لحاظ سے ہمیشہ ملتان کا حصہ چلاآیا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ جھنگ قیام پاکستان کے بعد تک ملتان ڈویژن کا حصہ رہا اور یہ بات بھی یاد رکھنے کا قابل ہے کہ جھنگ ہی وہ خطہ ہے جہاں انگریز کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا ہوااور اس دھرتی کے ہیرو رائے احمد خان کھرل نے بدیسی راج کے خلاف بغاوت کی اور بہت سے انگریزوں کو قتل کرنے کے ساتھ انگریز فوج کے اہم کمانڈر لارڈ برکلے کو بھی قتل کیا ، انگریز بھپر گے اور احمد خان کھرل کی بغاوت کچل دینے کے لیے کمر بستہ ہوگے ، انگریز نے جھنگ وسیب کی سول نافرمانی کا بدلہ اس طرح لیا کہ جھنگ پر 1849میں قبضہ کر کے اسے مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا اور سرکاری اصلاح میں جھنگ کو جانگلی کا نام دے دیا ، حریت پسندوں کے خاندانوں کو تعزیریں اورغداروں کو جاگیریں دیدیں ، انگریزوں نے ساندل بار میں آبادکاری سکیم شروع کی اور مقامی غریب کاشتکاروں کی بجائے مشرقی پنجاب سے اپنے وفاداروں یا پھر اپنے صاحب حثیت ایجنٹوں کو زمینیں دینا شروع کردیں ، جھنگ کی اہمیت انکا کلچر اور جغرافیہ ختم کرنے کے لیے انگریز گورنر جمیز لائل نے 1895میں ایک نئی منڈی کی بنیاد رکھی اس منڈی کو لائل پور کانام دیا ، ایک سال بعد 1896میں اسے جھنگ کی تحصیل بنادیا ،لائل پور شہر کی اعلیٰ پلاننگ مشہور زمانہ ٹاؤن پلانرسر گنگارام سے کرائی گئی ، گھنٹہ سے چھ کشادہ بازار وسیع سڑکیں اور اعلیٰ ترین منڈی او رصنعت کاری کا ماحول چار سال بعد 1900میں لائل پور کو جھنگ سے الگ کردیا گیا ، لائل پور پلاننگ تحصیل سے ضلع اور پھر ضلع سے ڈویژن بنادیا گیا اور اس طرح جھنگ کو اسی ڈویژن میں شامل کر کے جھنگ کی پسماندگی پر مہر تصدیق مثبت کردی گی ، آج جھنگ کے لوگ غربت اور افلاس کی وجہ سے فیصل آباد کی چار ہزار سے زائد ٹیکسٹائل اور دوسری فیکٹریوں میں مزدوری کرتے نظر آتے ہیں ،حلانکہ ان فیکٹریوں کو خام مال کپاس وغیرہ جھنگ اور سرائیکی وسیب کے دوسرے اضلاع دیتے ہیں ، جاگیرداری کا زکر کرتا چلوں تو یہ با ت قابل ذکر ہے کہ انگریز نے اس علاقے پر جو جاگیردار مسلط کیے ، وہ دراصل علاقے کے چور اور ڈاکو تھے چونکہ ڈاکو کا کوئی کلچر نہیں ہوتا ، اس لیے جھنگ کے جاگیر سیاستدانوں نے ثقافتی طور پر بہت ہی رچ خطے کو بے شناخت کردیا ، اورآج سوئیٹر ز لینڈور اٹلی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہزاروں ایکڑوں کی مالکہ محترمہ عابدہ حسین بھی اپنے آپ کو جانگلی کہتی ہے ،سابق وفاقی وزیر خالد کھرل بھی اپنے آپ کو کیا جانگلی کہتے ہیں یہی صورت حال دوسرے جاگیر داروں کی ہے کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ وہ دھرتی جہاں سولہویں صدی میں ہیر رانجھے کی لازوال داستان رقم ہوئی ، جہاں سترہویں صدی میں عظیم سرائیکی شاعر صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو نے 140 کتب تصانیف کیں ، جہا ں حضرت شاہ جیونہ نے انسانیت کو محبت کا درس دیا ، یہاں کی شاعری لوک ادب ، زبان وثقافت ، مٹھاس میں اپنی مثال آپ ہے ، اس جھنگ کو جانگلی بنادیا گیا ، انگریزوں نے جھنگ کو سزااورفیصل آباد کو صلادیا ، چلو کوئی بات نہیں یہ بات تو پرانی ہوگی ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج تو انگریز چلا گیا پھر آج کیوں جھنگ کو سزادی جارہی ہے ؟ تو اس کے زمہ دار آج جھنگ کے سیاستدان اور جاگیردار انہ نظام ہے ، جو کئی صدیوں سے جھنگ پر سیاست کرتے چلے آرہے ہیں ، جھنگ پنجاب کا حصہ ہے پھر کیوں جھنگ کو بھارت کا حصہ سمجھ کر ہر دور میں بدلہ لیا جاتا رہا ہے جھنگ کو کسی ترقیاتی مصوبے کا حصہ کیوں نہیں بنایا جاتا ، جسکی وجہ سے جھنگ کے باسی آج بھی انگریزوں کے دور میں جی رہے ہیں، ہاں سچی بات یہ ہے کہ کبھی آپ جھنگ سٹی کی گلیوں کا دورہ کریں ، جہاں ڈاکٹر عبدالسلام کا مسکن تھا ، جہاں وہ پڑھتے رہے ، کھیلتے رہے ، وہ گلیا ں آج بھی موہن جوڈورو کا منظر پیش کرتی ہیں جھنگ کو ہر دور میں محروم رکھا گیا ، چھوٹے چھوٹے شہر ترقی میں بہت آگے نکل گے ، لیکن جھنگ کو ہزاروں سال بعد ایک یونیورسٹی ملی ، جسکی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے جگہ فائنل ہوتے پچاس سال نکل گئے ۔

جب جگہ فائنل ہوئی تو پنجاب حکومت کے پاس پیسے ختم ہوگے ، جب اللہ نے تھوڑے پیسے دیے تو کسی آئن سٹائن کے دماغ میں برقی قمقمے روشن ہوئے کہ بلڈنگ کی تعمیر چھوڑو ، بنے بنائے کیمپس میں کام چلالو اور جو پیسے تھے وہ ادھر ادھر ایڈجسٹ کردیئے گے ، جھنگ کو باقاعدہ ایک منظم سازش کے تحت محرومی کا احساس دلایا جاتاہے ، موٹروے ، یونیورسٹی سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ، انفراسٹرکچر ، روزگار ، غرضیکہ کچھ بھی تو نہیں ملا ۔

اگر ملی ہے تو صرف فرقہ واریت اور جاگیردارانہ نظام ۔۔جھنگ کے بچگانہ زہن کے سیاستدان آج بھی ایک گٹر کو صاف کروانے گٹر بنوانے پر وہاں اپنے نام کی تختی لگواکر لوکل اخباروں اور سوشل میڈیا پر تصیویریں وائرل کرنے کی ذہنیت میں پھنسے ہوئے ہیں ، عوامی فلاح وبہود کے ادارو ں کو کھبی بھی مضبوط نہیں ہونے دیا گیا ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی گلی میں کھلے گٹر کا ڈھکن چاہے ہو یا گلی مین لائٹ لگوانی ہو ، نئے بجلی کے ٹرانسفارمر ، گیس کی فراہمی تو بہت اگے کی باتیں ہیں تو پھر مقامی سیاستدانوں کی بیٹھکوں میں کئی گھنٹوں انتطار کرنا پڑتا ہے پھر کئی جا کے شنوائی ہوتی ہے ، اور کام کا ہونا یا نہ ہونا اس کی کوئی گارنٹی نہیں ، جھنگ کی خوبصورتی اگر آپ نے دیکھنی ہو تو سرگودھا روڈ سے جھنگ داخل ہوتے وقت آپ کو اپکے قد سے اونچے گندگی کے ڈھیر نظر آئیں گے ۔

جس کو دیکھ کر اور انواع واقسام کی گندگی بھریں خوشبوئیں سنگھتے آپ اپنے حواس خمسہ کا ٹیسٹ پاس یا فیل کر سکتے ہیں۔
جھنگ بائی پاس کا چکر لگاکر آپ یا اپکے بچے نے اگرپتھر بھی کھائیں ہونگے تو اللہ کے فضل وکرم اور جھنگ سیاستدانوں کی مہربانی اور انتہائی شفقت کی وجہ سے وہ سب کچھ ہضم ہو چکاہوگا ، جھنگ کے سیاستدانوں کی انتہائی خوبصورت بات اور عادت یہ ہے کہ ان کو جس گلی سے ووٹ نہ ملیں وہاں کے لوگوں کو مزید دس بیس سال پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے ، انتقام کا نشان بنادیا جاتاہے اور حکومتی فنڈز اور بجٹ سے ایک روپیہ بھی وہاں خرچ نہیں کیا جاتا، حلانکہ حکومت کی طرف سے بجٹ ملتا وہ پورے علاقوں کے لیے ملتا ہے نہ کہ ان جہگوں کے لیے جہاں سے ووٹ لیکر جیتے ہوں ،بجٹ اور فنڈز پورے چائیں ہوتے ہیں ، لیکن لگانے ، بانٹنے ، کھانے اپنی مرضی سے ہیں ، ڈاکٹر عبدالسلام کی روح آج بھی جھنگ سٹی کے بے سروسامان کے مسکن کے پاس کڑلاتی پھر رہی ہوگی اگر ڈاکٹر عبدالسلام کی روح وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے روبرو پیش ہو کر وہ نوحے پڑھتی کہ سردار عثمان بزدار دکھی ہو کر قومے میں چلے جاتے اور صرف آخر میں ۔

میں امان اللہ جھنگ کے باسیوں کو التماس ہاتھ جوڑ کر کرتا ہوں کہ ان سیاستدانوں کی غلامیوں سے نکلیں اس جاگیردارانہ نظام کو ختم کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :