علی رضا عابدی کی حوصلہ مند ماں

بدھ 16 جنوری 2019

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

کراچی سے منتخب سابق رکن قومی اسمبلی اور نوجوان سیاستدان سید علی رضاعابدی کو کرسمس کے دن ان کے گھر کی دہلیزپرقتل کردیا۔ایک صاف ستھرے ، مہذب ،تعلیم یافتہ دلیراور باصلاحیت سیاستدان کی شہادت سے پاکستانی سیاست میں جوخلا پیدا ہواہے وہ مدتوں پورانہیں ہوگا۔محب وطن اور دردمنددل رکھنے والے لوگ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔ان کے بہمانہ قتل سے امن کی خواہش اور امید رکھنے والوں کوشدیدجذباتی دھچکالگاہواہے۔

تمام اہم سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور قائدین نے دہشت گردی کے اس ظالمانہ واقعے کی شدیدمذمت کی ہے۔بلاول بھٹوزرداری توصنم بھٹوکے ہمراہ علی رضا عابدی کے والدین سے تعزیت کرنے کے لئے خود ان کے گھرپہنچے۔کراچی پریس کلب کے باہرشہیدسیدعلی رضا عابدی کی والدہ نے اظہارِ یکجہتی اور افسوس کرنے والوں،اس کی یاد میں شمعیں روشن کرنے والوں سے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

اس خطاب میں انہوں نے جس جرات مندی اور دلیری سے اپنے احساسات اور جذبات کا اظہارکیا،اور فیض واقبال # کی جوشاعری پڑھی ،اس نے تمام اہل دل کو رلا دیا۔اس باہمت خاتون کی آواز میں ہلکی سی بھی لرزش نہیں تھی۔جواں سال بیٹے کی موت کادکھ تو لہجے میں ضرورتھا۔مگرچٹان جیساحوصلہ اور بے خوفی بھی تھی۔جب وہ پڑھ رہی تھیں کہ:
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوادیا
جوبچے ہیں سنگ سمیٹ لوتن داغ داغ لٹادیا
کروکج جبیں پہ سرکفن میرے قاتلوں کوگماں نہ ہو
کہ غرورعشق کابالکپن پس مرگ ہم نے بھلادیا
جو رکے توکوہ ِ گراں تھے ہم جوچلے توتوجاں سے گزر گئے
رہِ یارہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا
بہت سے قارئین شائد نہیں جانتے ہوں گے کہ علی رضا عابدی کی والدہ محترمہ خود بھی صاحبِ دیوان شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔

’زندان ذات‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔میری ان سے خاص نسبت کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمارے ضلع خانیوال سے تعلق رکھتی ہیں اورہمارے دوست سیدمصدق شاہ کی ہمشیرہ ہیں۔چندسال پہلے ان کے شعری مجموعے کی تقریب رو نمائی خانیوال میں منعقد ہوئی توصدارت کے لئے لاہور سے امجداسلام امجد# خصوصی طورتشریف لائے ،جبکہ مہمان خصوصی میرے بڑے بھائی رانا بابر حسین تھے جوکہ ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں۔

صحافی وشاعردوست طاہرنسیم نے علی رضا عابدی کی والدہ امّ سارہ کاشعری مجموعہ مجھے عنائت فرمایااور تقریب رونمائی میں اظہارِ خیال کرنے کی فرمائش بھی کی ۔بلا شبہ میرے لئے یہ اعزاز کی بات تھی۔کتاب کے مطالعہ کے بعدجو میرے تاثرات وجذبات کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں تھے میرا خیال ہے کہ ان کے اظہار سے آپ شہیدکی حوصلہ مند اورباہمت والدہ کے نظریات ،سوچ وفکراور شخصیت سے تعارف حاصل کرسکیں گے۔

ان کاذرا یہ شعرملاحظہ فرمائیں:
دار ہو کہ خنجرہویاکہ زہرکا پیالہ 
ان گنت سزائیں ہیں جرم اک کہن تنہا
”زندان ذات“کامطالعہ کرکے مجھے طمانیت کااحساس ہوا۔امّ سارہ کے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے اور انہیں بات کہنے کا سلیقہ بھی آتاہے۔ان کے ہاں اردوشاعری کی مثبت روایات کاپاس واحترام بھی موجود ہے۔حمدونعت ومنقبت سے آغاز اورسلام بحضورامام عالی مقام سے شعری مجموعے کے اختتام سے ام سارہ کی مذہب سے جذباتی وابستگی کاپتہ ملتاہے۔

ان کی شاعری اردو ادب کے قدیم وجدیدموضوعات کاحسین امتزاج ہے۔کہیں ہمیں اردوشاعری کی صنف سہراملتی ہے،جوکہ اب نایاب ہوتی جارہی ہے،تودوسری طرف ”چشم دید“جیسی جدیدنظمیں۔کیاخوبصورت شاعری ہے۔امّ سارہ کی ذراغورفرمائیے 
الجھے ہوئے ذہنوں سے نکل کرکبھی دیکھو
اس دھوپ کاکیارنگ ہے جل کر کبھی دیکھو
ان لوگوں کی خاموش صدائیں ذرا سننا
صاحب !تمہیں کیاکہتے ہیں نوکرکبھی دیکھو
درحقیقت جب کوئی اہل ِقلم اپنی شعری کاوشوں کے ساتھ سامنے آتاہے تواس کے کلام کامطالعہ اس بات کامتقاضی ہوتاہے کہ ہم اسے بالکل اسی نگاہ سے دیکھیں۔

جیسے ایک کھلتے ہوئے پھول کو دیکھتے ہیں،یعنی ہرنئے پھول کو اس کی پنکھڑیوں کی بناوٹ،اس کے رنگوں کی دل آویزی اور اس کی مہکارکے حوالے سے انتہائی غیرمحسوس طور پردوسری بہت سے پھولوں سے جدا کرکے دیکھااور پرکھا جاتاہے۔شعروسخن کی شاخوں پربھی جب کوئی نئی آواز کھلتی ہے تو وقت کا تقاضایہی ہوتا ہے کہ اسے آوازوں کے ہجوم سے جدا کرکے بغورسنا جائے ،کہ یہ ایک بامعنی اور باشعور آوازکے طورپراپنے عہدسے جڑی ہوئی ہے،یامحض پڑھتے ہوئے شور کی لایعنیت کا ایک حصہ ہے۔

ام سارہ کی شاعری اپنے معاشرے اورعہدوزماں سے باخبری کی ایک خوبصورت مثال ہے۔
دوڑہے مشینوں کی جگمگاتے صحرامیں
اوراک طرف لیٹی خواہش وطن تنہا
اس کے پہلے شعری مجموعے ”زندان ذات“میں جن شعری امکانات کی موجودگی کے اشارے ملتے ہیں وہ اس بات کی نوید دیتے ہیں کہ وہ دیگرقلم کاروں کے قافلے میں بھرپورتیاری اور اعتماد کے ساتھ شامل ہوچکی ہیں۔

اوریہ نظم تولگتاہے جیسے ام سارہ نے اپنے بیٹے سید علی رضاعابدی کے لئے اس کی شہادت پر ہی لکھی ہو،وہی سردی کا موسم اوروہی خون کی ارزانی۔
ان سبھوں کے بدن
گرم وزندہ بدن 
برف کے یخ تھپیڑوں سے پھٹنے لگے
ان کے ہرعضوسے خون رسنے لگا
اس لہو کی حرارت بھری ایک بوند
برف کی یخ زمیں پرتڑپنے لگی
پاش پاش ہو کے بکھراہوا وہ لہو
اک شگاف اس زمیں میں بنا نہ سکا
چند لمحوں کی سردی میں گم ہو گیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :