چین مخالف اتحاد؟

جمعرات 1 اپریل 2021

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

عام طور پر عالمی سطح کے سیاسی،سماجی،معاشی اورعسکری اتحادہوں یا پھرتنظیمیں،ان کے نام ایسے نہیں ہوتے جیسا”دی کواڈ“ہے ۔چاراہم عالمی طاقتوں امریکہ،آسٹریلیا،جاپان اور ہندوستان پر مشتمل اس ”کواڈ“کا نام شائداس لئے بھی کچھ مختلف ہے چونکہ یہ کوئی باقاعدہ اتحادیا تنظیم نہیں ہے۔ستم ظریفی مگرملاحظہ فرمائیے کہ آج ہر اہم بین الاقوامی پلیٹ فارم پر یہی ڈھیلا ڈھالاسا اتحادگفتگوکا موضوع بنا ہوا ہے ۔

عالمی میڈیامیں ان دنوں خبروں کاموضوع بننے کی وجہ ”کواڈ“کا حالیہ سربراہی اجلاس ہے۔امریکی صدرجوبائیڈن اوربھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے علاوہ جاپان اورآسٹریلیاکے وزرائے اعظم نے بھی مواصلاتی ویڈیو رابطے کے ذریعے اس اہم اجلاس میں شرکت کی ہے۔

(جاری ہے)

اگریہ کہاجائے کہ مارچ کے مہینے میں عالمی سیاست ،خارجی اور دفاعی اعتبار سے یہ اجلاس سب سے اہم رونما ہونے والا واقعہ تھا تو اس میں ذرا بھی ،مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔

چین کی حکومت نے اس اجلاس اور تنظیم کو چین مخالف قراردیتے ہوئے سردجنگ کے زمانے کی فرسودہ سوچ کا شاخسانہ اورچین کی ترقی کو روکنے کا بہانہ بتایا ہے۔
بحرالکاہل اور بحیرہ ہندکے درمیان آزادانہ آ مدورفت کویقینی بنانے کے نصب العین پرقائم ہونے والے چارملکی اتحاد میںآ خرکوئی تو بات ایسی ہوگی کہ اسے چین مخالف قراردیا جا رہا ہے ۔ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بنتی،بگڑتی اس دنیا میں اور بھی تواتنا کچھ ہو رہا ہے مگرآخرکارکواڈکو ہی چین اپنا مخالف کیوں قراردے رہا ہے؟بظاہرلفظ”سکواڈ“کی آواز ”کواڈ“سے ملتی ہے جوکہ دفاعی و مسلح معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

مگرملتے جلتے صوتی اثرات کی بنیادپر تواسے عسکری وتزویراتی منصوبہ قرارنہیں دیا سکتا۔حقیقت حال یہ ہے کہ غیر جانبدارمبصرین اسے ایشین NATOقراردے رہے ہیں اورموجودہ چینی صدر شی جی پنگ کے ون بیلٹ روڈ منصوبے کے مدمقابل پروگرام گردان رہے ہیں۔
آج جب ہر طرف چارکے ٹولے کا چرچاہے ،چین مخالف اتحادکی اصطلاح فقط چینی میڈیا سے نہیں آرہی بلکہ یہی آاواز ہمیں مغربی میڈیا سے بھی کانوں میں مسلسل پڑرہی ہے،تمام ذرائع ابلاغ کی جانب سے کواڈ کو چین مخالف محاذکہہ کر بلایاجارہا ہے۔

ایسے عالم میں مناسب ہوگا کہ اس فورم کی ابتدااور بنیاد کا تذکرہ کریں۔جس سے بہت سارے سوالات کے جوابات مل سکتے ہیں۔کواڈبنانے کا خیال جاپان کے سابق وزیراعظم شنزوآبے نے 2004میں پیش کیا تھا۔یہ2007تھاجب اس خیال نے عملی شکل اختیار کر لی،اسی برس پہلی بارایشیاء پیسفک اجلاس کی راہداریوں میں مذکورہ چار ممالک کے سربراہان مل بیٹھے تھے اور یہ اتحاد تشکیل پایا تھا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ کہ اس فورم کا بنیادی مقصد ہی چین کی معاشی ترقی اور بڑھتے ہوئے تزویراتی اثرات کے آگے بند باندھنا ہے۔FOIPکے نام سے فری اینڈ اوپن انڈوپیسفک وژن کا یہ ادارہ بظاہر خطے میں امن اور استحکام کے لئے تشکیل دیاگیا ہے مگر جب ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی حالیہ ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ”کواڈکی روح“کا ذکر کرتے ہیں تووہ صاف ظاہر ہے کہ انڈو پیسفک کے علاقے میں چین کے اثرات کو محدودتر کرنے کا تذکرہ کر رہے ہیں۔


قیام تو اس تنظیم کا 2007میں ہوامگر سالہاسال کی گہری نیند کے بعد بیداری 2017میں ہوئی۔وہ بھی یوں کہ رنگارنگ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کو ہر محاذ پرٹکر دینا چاہتے تھے۔جوبائیڈن کے ویسے تو موصوف سے ایک سو ایک اختلاف رہے ہوں گے مگراس موضوع پر انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کوآگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔بھارت میں کروناویکسین کی تیاری اور عالمی سطح پر اس کی ترسیل کے متعلق تمام معاملات اسی کواڈ کے پلیٹ فارم پر طے پائے ہیں۔

باالفاظ دیگر ہندوستان کی موجودہ عالمی حیثیت کے پیچھے ”کواڈ“کا بہت اہم کردار ہے۔یہاں ایک بات کا تذکرہ میں ضرور کرنا چاہوں گا،من حیث القوم ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اس عالم رنگ و بومیں آزادممالک کے باہمی خارجہ تعلقات ویسے نہیں ہوتے جیسے افراد کے ذاتی تعلقات ہوتے ہیں۔انسانوں کے باہمی تعلقات میں دوستی کا رشتہ قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔

جو آدمی دوست کی دلجوئی ،آسانی اور خوشی کے لئے اپنا چھوٹا سا بھی مفاد قربان نہیں کرسکتا وہ شخص دوستی کے قابل نہیں ہوتا۔عالمی سیاسی منظرنامے پر نظرڈالیں توہمیں صورتحال یکسرمختلف نظر آتی ہے۔ہر ملک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل نظر آتا ہے۔طاقتورعالمی قوتوں کانہ کوئی ملک مستقل دوست ہے اور نہ ہی کوئی دیس مستقل دشمن رہتا ہے۔

مشترکہ مفادات اور مشترکہ دشمن ممالک کو قریب لے کر آتے ہیں اور دوری کا سبب بھی بنتے ہیں۔ورنہ حالیہ برسوں میں ہم نے اپنے وزیراعظم کوعرب ملکوں کے حکمرانوں کی ڈرائیوری کرتے ہوئے دیکھا ہے،جوکہ بالکل ہی بے سود اوربے ثمر رہی۔
چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی کی بڑی ٹھوس وجوہات ہیں۔پہلی وجہ جغرافیہ،دوسری وجہ مشترکہ دشمن بھارت اورتیسری وجہ سرحد کے ساتھ سنکیانگ کی اوغرمسلمان آبادی وہ مشترکہ دلچسپی کا موضوع ہیں جوہمیں اچھے ہمسایہ تعلقات کی جانب لے جانے کا سبب ہے۔

بلا شبہ معاشی پہلوہمارے دو طرفہ تعلقات میں سب سے اہم ہے۔یہ معیشت ہی ہے جو امریکہ اور چین کی باہمی مخاصمت کے باوجودانہیں مجبوررکھتی ہے کہ اپنے خارجہ دوطرفہ تعلقات کو ایک خاص حد سے زیادہ خراب نہ ہونے دیں چونکہ 2020میں امریکہ کا سب سے بڑاتجارتی شراکت دار چین ہی رہا ہے۔یہ الگ بات کہ امریکیوں کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعدچینی حکومت نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ امریکہ اوراس کے حلیف سرد جنگ کے زمانے والی ذہنیت رکھتے ہیں اورچین بیرونی طاقتوں کے مقابلے میں تیا رکھڑاہے۔


کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقت یہی ہے کہ چین کے معاشی ابھار سے تمام دنیااور بالخصوص مغربی دنیا نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ایک سادہ سی مثال دوں کہ جاپان میں آج سے تیس سال پہلے جو شیشے کا گلاس ہزار روپے سے کم قیمت پرکہیں بھی دستیاب نہیں تھا،آج وہی گلاس سو روپے میں ہر شہر اور ہرقریے میں باآسانی دستیاب ہے۔اس کی واحدوجہ”میڈ ان چائنا“مال کا مارکیٹ میں آناہے۔


چین کے سبب سے تمام دنیا میں اکثراشیاء جو روز مرہ کے استعمال کی تھی مگر صرف امیروں کی ہی قوت خرید میں آتی تھیں،چین نے وہ عام انسانی ضرورت کی اشیاء سستے داموں ہر آدمی کی دسترس میں کر دی ہیں۔ میری نظرمیں چین کے انقلاب اور معاشی ترقی کا سب سے روشن پہلویہ ہے کہ ا س نے سترکروڑانسانوں کوغربت کی دلدل سے باہر نکالاہے۔آپ یہ سوچیں کہ اگر کوئی بھی نظام اورریاست دنیا کے پندرہ فیصدلوگوں کوغریبی کے عذاب سے نجات دلا دیتی ہے تو یہ ناصرف انقلاب بلکہ معجزہ ہے اس معاشی معجزے کے لئے کمیونسٹ پارٹی اورعوامی جمہوریہ چین کی جتنی زیادہ بھی تعریف کی جائے وہ کم ہی ہے ۔


مذکورہ کواڈاتحاد میں شامل ہندوستان کی ترجیح بحیرہ ہند میں چین کی کاروائیوں کو محدودکرنااور اس کے اثرات کو کم کرنا ہے۔ستم ظریفی مگر یہ ہے کہ آسٹریلیا،بھارت اور جاپان کامعاشی انحصارچین پر بہت زیادہ ہے۔چین جاپان کا سب سے بڑاتجارتی شراکت دار ہے۔آسٹریلیا کی درآمدات اور برآمدات دونوں شعبوں میں چین پہلے نمبر پر ہے۔اوربھارت کا بھی سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار چین ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :