بین الثقافتی ہم آہنگی کی عالمی ضرورت

بدھ 28 جولائی 2021

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

گزشتہ ماہ کینیڈامیں ایک پاکستانی نژاد خاندان کے ساتھ پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعے نے تمام دنیا کے اہلِ دل اورحساس لوگوں کوجھنجھوڑکررکھ دیا۔بلامبالغہ یہ ایک بہت بڑاالمیہ ہے ،جس میں ایک ہی خاندان کی تین نسلوں کے چار افرادکوایک سفید فام نسل پرست نوجوان نے تیزرفتارٹرک کے نیچے دانستہ طور پر کچل دیا۔صورتحال اس لئے زیادہ پریشان کن ہے چونکہ اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق متاثرہ خاندان سے قاتل کی کوئی جان پہچان یا ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

مبصرین کی غالب اکثریت نے اس افسوس ناک واقعے کو مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیاسے جوڑاہے،تجزیہ نگاروں کی یہ رائے بڑی حدتک درست معلوم ہوتی ہے۔یاد رہے کہ مغربی میڈیا اورحکومتیں بڑی دیر تک اسلاموفوبیاکوجھٹلاتی رہی ہیں۔

(جاری ہے)

کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈرنے جب اس واقعے کے اسلاموفوبیاکے ساتھ نام لے کر منسلک کیا تو غالباًیہ پہلا موقع تھا جب کسی اہم مغربی سربراہ حکومت نے اعتراف کیاہو کہ ان کے معاشرے میں یہ مسئلہ موجود ہے۔


اگرچہ مغربی دنیا میں”Clash of Civilizations“کی طرز پر بہت ساری کتابیں اس موضوع پر شائع ہوچکی ہیں،جن میں مغربی مصنفین نے سوویت یونین کے انہدام اورکیمونزم کے زوال کے بعد اسلام کومغربی طرززندگی اورتہذیب کے لئے سب سے بڑاخطرہ اور چیلنج قراردیا ہے ،مگرکبھی بھی وہاں کے مین سٹریم میڈیانے اس موضوع کی طرف خاص توجہ نہیں دی۔ملائیشیاکے سابق صدرڈاکٹرمہاتیرمحمداس مسئلے کوعالمی سطح پراجاگر کرنے میں بڑااہم کرداراداکرچکے ہیں۔

اہم سوال مگر یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟میری نظرمیں تو پر امن طورپر آگے بڑھنے کا واحدراستہ بین الثقافتی ہم آہنگی ہے۔
زیادہ افسوسناک پہلومذکورہ واقعے کایہ ہے کہ یہ رونماہونے والاپہلاواقعہ نہیں ہے،اوربدقسمتی سے نہ ہی اپنی نوعیت کا یہ آخری واقعہ ثابت ہوگا،جس کی بنیاد نسلی تعصب ،مذہبی منافرت اور عدم برداشت کارویہ ہے۔اگرہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کے حادثے رونما نہ ہوں کہ جس میں نوجوان یہودی سفید فام نے اپنے سے مختلف نظرآنے والے انسانوں کوٹرک کے ٹائروں کے نیچے یوں کچل دیاجیسے کوئی صاحب دل کسی جانور کوبھی کچلنے کا تصور نہیں کرسکتا۔

اس مسئلے کے حل کے لئے ہماری دنیا کوباہمی ثقافتی مکالمے کی طرف بڑھناہوگا۔یہ کوئی خیالی یا فقط علمی گفتگو نہیں ہے بلکہ ایک عملی چیلنج ہے،جس سے اگر مناسب انداز میں نہ نمٹا گیاتومستقبل میں اس کی شدت مزیدبڑھ جانے کا خدشہ ہے۔اس کا طریقہ کیا ہوگا؟یہ ایک بحث طلب موضوع ہے،جس کی کئی جہتیں ہیں۔
پہلے ہم ثقافت پر ہی بات کر لیتے ہیں۔ثقافت ہے کیا چیز؟کثرت استعمال سے گرچہ یہ لفظ بہت بدنام اورپامال ہوچکا ہے مگرپھر بھی اس کی اہمیت سے مفرممکن نہیں ہے۔

مختصراورسادہ ترین الفاظ میں”کسی بھی خطے کے لوگوں کازندگی گزارنے کا مخصوص ڈھنگ ثقافت کہلاتاہے“اس دنیا کا علاقہ چاہے کوئی بھی ہو،اس خطہٴ ارض کے لوگوں کی بودوباش اورانداز زیست اگر ثقافت ،کلچریا فرہنگ کہلاتی ہے تومیری نظر میں زبان کسی بھی کلچرکا DNAہوتی ہے۔کسی بھی کلچرکوسمجھنے کے لئے اس کی زبان کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ثقافت کی مثال اگر جسم کی طرح ہے توزبان اس جسم میں روح کی مانندہے۔

آج جب تہذیبوں کے ٹکراؤجیسے موضوعات پرکتابیں لکھی جارہی ہیں توضرورت اس بات کی ہے کہ اس ممکنہ ٹکراؤکوروکنے کی پیش بندی کی جائے۔اس ضمن میں بین الثقافتی ہم آہنگی پیداکرکے ہم ایک بہترمستقبل کی جانب بنی نوع انسان کے لے کرجاسکتے ہیں۔
میری اس موضوع سے نسبت کا مختصر احوال یوں ہے کہ درجنوں ممالک کی میں نے سیاحت کی ہے اور سات عالمی زبانوں پر مجھے دسترس حاصل ہے ۔

گرچہ روایتی تعلیم بائیوکیمسٹری اورایم بی اے مگرمیرا شوق شعروادب رہا ہے ۔اب تک میری ایک درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں،جن میں سے ایک نوبل انعام یافتہ شعراء پابلو نرودااورگبریلامسترال کی شاعری کے ہسپانوی زبان سے براہ راست اردوزبان میں منظوم تراجم پرمشتمل ہے۔آج کل میں جاپان کے صوفی شاعر ماتسوباشوکا جاپانی سے پنجابی میں ترجمہ کررہا ہوں۔

شایداسی پس منظر کے سبب گزشتہ دنوں گورنمنٹ کالج وومن یونیورسٹی فیصل آباد نے مجھے بین الثقافتی ہم آہنگی میں تراجم کے کردارپرلیکچردینے کی دعوت دی۔پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلباء کے علاوہ شعبہ اردو کے اساتذہ اورصدرنشین ڈاکٹرصدف نقوی بھی سامعین میں موجود تھیں۔موضوع سخن ایسا ہے کہ درس گاہوں سے باہرعمومی اخباری قارئین کے لئے بھی دلچسپی اور اہمیت کا حامل ہوسکتاہے۔


یہ آج کی تلخ حقیقت ہے کہ دنیا تنگ نظری کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے ،جوکہ زمین کو تنگ کئے جارہی ہے۔جب ہم ایک زبان کے ادب کوکسی دوسری زبان میں منتقل کرتے ہیں توہمیں دوسرے لوگوں کے اندازفکر،نظریات کے ساتھ ساتھ اخلاقی پیمانوں کی بھی سمجھ آتی ہے۔نفرت اور محبت کے اظہاریے معلوم پڑتے ہیں۔کسی بھی زبان کا ادب اس کے سماجی،ثقافتی اور عقلی ارتقاء کا نچوڑہوتا ہے۔

اگر ہم عالمی امن کے خواہاں ہیں تواس کے لئے ثقافتی ہم آہنگی ضروری ہے۔مکالمہ اس ضمن میں سب سے موثر اور بنیادی عنصر ہے،جس کا ایک طریقہ بین اللسانی تراجم ہیں،جو کہ ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنے میں موثر کرداراداکرسکتے ہیں،ہمارے ہاں بہت سے دانشوروں کے نزدیک ثقافت کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ہمارے باباجی اشفاق احمد کہ جن سے میری نیازمندی تھی، کہتے تھے کہ میں نے سویٹر پہنا ہوا ہے،کیونکہ مجھے سردی لگ رہی ہے،اس میں سے ثقافت کہا ں سے آ گئی؟نسیم حجازی نے توثقافت کی مذمت میں پورا ناول لکھ چھوڑا ہے،”ثقافت کی تلاش“۔

ہمارے لبرل اورترقی پسند دوست مگردوسری انتہا پرکھڑے ہیں،کہ مذہب کا ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نیزثقافت اسلامیہ نام کی کسی چیز کادنیا میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
بیرونی دنیا میں اپنی اپنی ثقافت سے بہت زیادہ لگاؤ پایاجاتاہے۔عمومی طور پرلوگ اسے نہایت اہم خیال کرتے ہیں۔اس بابت میں لاطینی امریکہ کے دوواقعات بیان کرناچاہوں گا۔میلے ٹھیلے ہماری طرح تقریباًپوری دنیا میں ہوتے ہیں۔

ایسے ہی ایک میلے میں چلی کے دوردرازشہر میں شرکت کا موقعہ ملا۔بہت سال پہلے کی بات ہے،ان دنوں یہ سمارٹ فون والے کیمروں کارواج اور راج نہیں تھا۔مووی کیمرے اچھے خاصے بڑے سائز کے ہوا کرتے تھے۔اورپوری دنیا میں ان کی بڑی عزت و قدر تھی۔لوگ ان کا بڑااحترام اور تکریم کرتے تھے۔وہاں میرے اردگردفلم میں نظر آنے کے شوق میں بہت سارے بچے اکٹھے ہوگئے،وہاں انہوں نے نعرے لگانے شروع کردیئے۔

وہ نعرے اب بھی مجھے یاد ہیں،ہسپانوی زبان میں سب سے نمایاں نعرہ
”VIVA LA CULTURA“
یعنی ثقافت زندہ باد تھا۔آپ جیوے جیوے کلچرجیوے بھی کہہ سکتے ہیں۔
سلفی عقیدے کے حامی ہمارے دوست خالد صاحب مذہبی رجحان رکھتے ہیں۔جہادمیں عملی طور پربارہاشریک ہوئے۔گرچہ کئی ممالک میں پرخطرحالات میں بھی جہاد کا اسلامی فریضہ سر انجام دیا،مگرساتھ ساتھ ہماری طرح تجارت بھی کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ جنوبی امریکہ میں ان کونئی سیکرٹری کی ضرورت پڑی تو انہوں نے بذریعہ اشتہاریاجو بھی مروجہ طریقہ کارتھااعلان کروایا۔ڈھنڈیاپڑی تو ایک خوبروخاتون نوکری کے لئے انٹرویودینے آگئی۔لڑکی ذہین تھی اورسیکرٹری کا مطلوبہ کام بھی جانتی تھی۔مقامی رواج کے مطابق اس نے منی سکرٹ پہن رکھی تھی،جو کہ خاصی مختصر تھی۔ہمارے دوست نے انٹرویوکے دوران تنخواہ وغیرہ کے معاملات بھی طے کر لئے اور اسے اگلے دن سے ہی کام پر آنے کاکہہ دیا۔

آخر میں خالد بھائی نے خاتون سے کہاکہ باقی سب تو ٹھیک ہے مگر دفتر میں منی سکرٹ پہن کرمت آنا۔بلکہ مکمل جسم ڈھانپ کر آنا۔اس پر خاتون نے کہاکہ یہ لباس تو ہمارا کلچرہے،اس پر میں سمجھوتا نہیں کرسکتی،وہ نوکری ٹھکراکرچلی گئی۔ہمارے پاکستانی دوست حیران اس لئے بھی زیادہ تھے کہ اس دوشیزہ کو نوکری کی شدیدضرورت تھی،اورانٹرویوکے دوران اس بات کااس نے بارہا اظہار بھی کیا تھا،مگرثقافت سے اس کا لگاؤشاید ذاتی ضروریات سے بھی بلندترتھا۔


ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصدیہ ہے کہ ضرورت ہمیں صرف اپنا موقف بیرونی دنیا تک پہنچانے کی نہیں ہے۔بلکہ بیرونی دنیاکی ثقافتی حساسیت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔بعض قارئین ہوسکتا ہے اسے خالصتاًمذہبی معاملہ سمجھتے ہوں،مگرحقیقت میں ایسانہیں ہے۔کئی سکھ مغرب میں اب تک قتل ہو چکے ہیں چونکہ ان کا حلیہ ہم سے ملتا جلتا ہے۔
بعض دوستوں کوشائد یہ بات بری لگے مگر میں کسی بھی ثقافت کوکسی دوسری ثقافت سے بالاتریاپھرکم ترتسلیم نہیں کرتا ہوں۔

میری نظر میں ہرکلچرایک توازن پرکھڑاہے اور مختلف ثقافتوں کی مثال باغ میں کھلے ہوئے انواع واقسام کے پھولوں کی طرح ہے،جس میں ہر پھول کا اپنا رنگ اور اپنی خوشبوہے۔یہ تمام رنگ اور ساری خوشبوئیں ہی دل آویز ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الثقافتی ہم آہنگی پیدا کی جائے ۔تہذیبوں کے مابین مکالمے کے ذریعے تصادم کی بجائے مفاہمت کاراستہ اپنایاجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :