مکافاتِ محاورات

بدھ 20 اکتوبر 2021

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

بے شک زمانے میں تغیرات کو کمال کا ثبات ہے اور وقت کے ساتھ اقدار،روایات سب کچھ بدلتا رہتا ہے ۔ ایسے میں اردو محاورات وضرب الامثال بھی مکافات سے دو چار کیوں نہ ہوں ۔ آئیے چند محاورات کی بات کریں جن کے مفاہیم بدل چکے ہیں اور اب یوں لکھنے اور پڑھنے میں مضائقہ نہ ہوگا ۔
1۔ چراغ تلے اجالا
گئے وقتوں میں رات کو روشنی کیلئے استعمال ہونے والے دئیے،چراغ ،لیمپ اور لالٹین کی بناوٹ ہی ایسی تھی کہ ان نیچے اندھیرا رہتا تھا اور باقی ماحول روشن رہتا۔

مگر آج کے الیکڑک چراغوں کا معاملہ الٹ ہے اور ان کی روشنی کا رخ نیچے ہوتا ہے ۔بلکہ اکثر کے سر پر کیپ ہونے کے موجب چراغوں کے اوپر اندھیرا چھایا رہتاہے ۔

(جاری ہے)

علاج پرہیز سے بہتر ہے
بیاریوں اور حالات کی ابتری سے بچنے کیلئے حفظِ ماتقدم سماجی عقیدے کی مانند تھا۔تاہم آج کے تیز مشینی دور میں اتنا وقت ، صبر اور قناعت کہاں؟۔

اب کون وسائل کے ہوتے ہوئے ہمہ وقت معاذاللہ کہتا پھرے۔جو دل میں ہو وہ کر گزرنا پریسٹیج ہے ۔گر آنچ وآنے کااندیشہ جنم لے تو وسائل سے آسان حل ڈھونڈے جاسکتے ہیں ۔ مثلاََ رشوت لیتے پکڑا گیا شخص رشوت دے کر چھوٹ سکتا ہے تو پھر رشوت لینا کیوں چھوڑ اجائے ۔۔اسی طرح جو کھانے کو جی مانگے کھاتے جاؤ ۔کچھ ہوا تو میڈیکل کی حیرت انگیز سہولتیں کس لئے ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ اس د ور میں پرہیز کے نام پر کُڑھنے سے یہ یقین رکھنا بہتر ہے کہ اللہ نے ہر مرض کا علاج دنیا میں رکھ دیا ہے ۔
3۔اتفاق میں ٹینشن ہے
 مل جل کر کام کرنا اور زندگی گزارنا باعثِ برکت و سہولت تھا ۔پر فی زمانہ مشترکہ خاندان اور اکٹھ سبھی کا منہ چڑاتا ہے ۔ایک ہی کمرے میں ہنسی خوشی رہنے والوں کو اب الگ الگ کمرا اور پرائیویسی درکار ہے ۔

خود مختاریوں کو خطرات لاحق ہیں اور جوائنٹ فیملی میں چھپ چھپ کر اپنے کمروں تک گرہستی و ماکولات کی رسد نہائت تکلیف دہ امر ہیں ۔ لہٰذا اب اتفاق میں شدید ٹینشن پنپتی ہے اور علٰیحدگی پسند ساسیں ، دیورانیاں اور بہوؤیں اس محاورے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے بر سرِ پیکار ہیں ۔
4۔ جو سکھ بازارے، نہ گھر نہ چوبارے
 دورِ حاضر میں اپنے گھر کی نسبت دوسروں کے گھر اورچوک بازار دل کو زیادہ لبھاتے ہیں۔

تقریب پسند احباب کے ہاں گھر بیٹھنا اور گھر سے کھانا دقیا نوسی علامات ہیں ۔ بقول شاعر ،
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مَرے ہسپتال جا کے
5۔ نہ ہو گا نو من تیل،رادھا پھر بھی ناچے گی
 اس محاورے کے معانی کسی کام کیلئے انتہائی مشکل شرط رکھنے کے ہیں ۔

لیکن آج بھلے پلے دھیلا بھی نہ ہو ،میلا دیکھنے کے جنون معراج پہ ہیں ۔ اپنے ہاں تو یہ کچھ زیادہ ہی صادق ہے اور یہاں رادھائیں تیل گیس بجلی اور غذا کی حالتِ زار کے باوجود ناچنے پہ آمادہ بلکہ بضد ہیں ۔
6۔ لالچ بڑی جزا ہے
اب لالچی کتے کا فلسفہ بھی بدل چکا ہے اور لالچ کو کچھ حاصل کرنے کے لئے ضروری خیال کیا جاتا ہے ۔

ورنہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے قناعت کئے بیٹھنے سے کچھ نہیں ملتا ۔ترقی اور آگے بڑھنے کیلئے لالچ بجا ہے ۔
7۔ اب پچھتائے کیا ہووت جب ایک رہا نہ پیج
 وطن ِ عزیز میں پیج یا صفحہ کو تقدیس حاصل ہے اور ایک پیج پر ہونا سعادت و بقا کی علامت ہے۔ مگر لاکھ احتیاط کے باوجود اس پیج سے بندہ پھسل کر تختہء دار ،بی ہائینڈ دا بار یا آر یا پار بھی ہوسکتا ہے ۔

لہٰذا پیج پر قدم جمانے کیلئے دن رات ایک کرنا لازم ہے ۔ پیج ایک نہ رہنے کی صورت میں پچھتانا مطلقاََ بے سود ٹھہرتا ہے ۔
8۔ بندر کی بلا ، طویلے کے سر
ماضی میں طویلے میں رکھے گئے گھوڑوں کو وباؤں سے بچانے کیلئے باہر بیٹھا بند ر وبا کا شکار ہوتا مگر اصطبل محفوظ رہ جاتاتھا ۔ پر اب بڑے لوگ خود کو بچانے کیلئے پوری قوم کی قربانی دیتے ہیں۔

ایک مچھلی سارے جل کو خراب کرتی ہے ۔ اسے سیاست سے جوڑنا ہرگز مناسب نہ ہوگا ۔
9۔ ہنوز تبدیلی بسیار دور است
 دلی واقعی دور تھا اور اب بھی ہے مگر تبدیلی آنے کا یقین کامل تھا ۔خوب پرکھنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ نہ صرف تبدیلی دور است بلکہ تبدیلی ہمارے گھروں اور اداروں میں بال کھولے سو رہی ہے ۔
10۔

ہاتھ کنگن، کچھ اور بھی لا

 مطلب یہ کہ صاحبانِ دولت کو چھوٹی موٹی اشیا کی حاجت نہیں رہتی ۔لیکن اب کوئی جتنا تونگر و متمول ہے اتناہی مزید حصول کا خواہاں ہے ۔ گویا ”سم تھنگ مور “ اور ” کجھ ہو ر “ کا دور ہے ۔ ہوس نصیب نظروں کو کہیں قرار نہیں۔کاسہء چشمِ حریصاں پُر ہونے کا خوگر ہے نہ آج کا قیس فقط لیلیٰ پر قانع ہے ۔
11۔

بِیڑا کھا جانا

 پرانے دور میں بادشاہ کسی اہم ذمہ داری کی تفویض کیلئے عمال کو بلاتا اور ان کے سامنے بیڑی کے پتے پھیلا کر دریافت کرتا کہ یہ مہم کون ذمہ لے گا ۔ جو پتا اٹھا لیتا اسے وہاں بھیج دیا جاتا ۔ گویا یہ محاورہ کسی اہم ذمہ داری لینے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جو تیس مار کسی کام کا بیڑہ اٹھاتا ہے ،بیڑا ہی خود کھا جاتا ہے ۔


12۔ ایک بیمار سو انار
کسی قیمتی چیز کے متعدد امیدوار ہو سکتے ہیں۔ یہ محاورہ اس لحاظ سے اب بھی درست سہی پرکہیں کہیں یہ بھی مکافات کا شکار ہے ۔جیسے کوئی گمبھیرتا پیش آجائے یا کوئی بیمار ہو تو ہزاروں مشورے،حل اور نسخے ملنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اس کا واضح ثبوت سوشل میڈیا پہ کھلے بندوں دستیاب ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :