سیکستھ جنریشن وار(sexth generation war )

جمعہ 1 اکتوبر 2021

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

ابھی ففتھ جنریشن کے وار تھمے نہ تھے کہ سکستھ جنریشن کے سیاپوں کی طوطیاں اپنے طوطوں سمیت بولنے کے ساتھ ساتھ دِکھنے بھی لگیں۔لہٰذا اسے سیکستھ جنریشن وار کہنا زیادہ موزوں ہوگا ۔ اردو سے محبت رکھنے والے اسے حریم شاہی دور بھی کہہ سکتے ہیں ۔سائنس کی بے پناہ بلکہ خدا پناہ کی حد تک ترقی سے ہر فرد کے ہاتھ جام جمشید لگ چکا ہے جس کے ذریعے دنیا و ما فیہا کی جملہ حرکات مِن و عن قابلِ سماعت و بصارت ہیں۔

یہ سب ویڈیو کریسی کی ترقی یافتہ اور اخلاق باختہ شکلیں ہیں۔ اب خلوتوں کے آداب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہے ہیں۔ جلوتوں میں معاذ اللہ کہنے والوں کے خلوتی کرتوت ہائے سیاہ کا منظر عام پہ آنا معمول کی بات ہے۔ اب غزالانِ حرم سے صحبتوں کے ثبوتوں سے مُکر ممکن نہیں رہا۔

(جاری ہے)

جہاں ” اللہ دیکھ رہا ہے وہاں کیمرا بھی شریک ہے ۔۔ گویا شہر کا شہر الٰہ دین کا چراغ لئے پھرتاہے اور اسی چراغ سے لوگوں کے عیوب ڈھونڈتا پھرتا ہے۔

ان حالات میں شوگر ڈیڈیوں کی تشخیص کا معما بھی حل ہو گیا ہے۔ اب اطلاقی دل پھینک اور بوالہوسوں کی مٹی پلید ہونے کے وسیع اہتمام موجود ہیں۔دفاتر، گھر، ریستوران، نیٹ کیفے، مدارس، دربار، شادی، غمی،ہسپتال، سکول اور نہ جانے کہاں کہاں کیمروں کی آنکھیں جھانک رہی ہیں۔ حال ہی میں اک بڑی سیاسی جماعت کے ایک بڑے راہ نما کسی رُخِ زیبا سے نا زیبا حرکات کرتے بِنا کچھ زیب تن کیمرے میں محفوظ ہوکر زیب ِ داستاں بنے ۔

کچھ لمحے غیر ملبوس ہوئے تو قیامت ٹوٹ پڑی ۔گاندھی جی بھی تو عمر بھر ایسے پھرتے گئے مگر پھر بھی قوم کے باپو ہیں۔ اصل میں موصوف نے اپنی جماعت کی ادھوری تنطیم سازی کی تکمیل میں یہ قدم اٹھایا مگر لوگوں نے غلط رنگ دیا ۔ اسی طرح دو سال پہلے صاحب ِ نیب کی خودی کا ” اقبالِ جاودانہ “ اتنا بلند ہوگیا کہ اپنے دفتر میں ہی اپنی رضا کھول کر بیان کردی۔

ایسی آنکھیں لگیں کہ پھر آنکھ کا لگنا دشوار ٹھہرا مگر کیمرے کی آنکھ نے یہاں بھی سب کچھ دیکھ لیا۔ ویڈیو کے افسانے سوشل میڈیا پہ پھیلے اور بات چل کر دور تک جا نکلی۔مگر اوپر کی غیبی امداد آپہنچی۔
اک اور بڑے ملک الاحتساب کو کیمرے کی آنکھ نے اس وقت دیکھ لیا جب وہ چل کر پینے گئے مگر اٹھا کر لائے جارہے تھے۔ بس ذرا کم ظرفی سے اک جام میں لڑکھڑا کر جاگرے۔

کیا کرتے، کثرتِ دباوٴ سے گھبرا کے پینے پہ جا لگے۔ انہیں پینے کا شوق ہرگز نہ تھا بلکہ محض دباوٴ کا غم بھلانے کیلئے پیتے رہے۔ ویڈیو کریسی کے ظہور سے قبل کتنے مناظر ہو نگے جو منظر ِ عام پہ آنے کی سعادت سے محروم رہ گئے اور دنیا ان کی زیارت بنفسِ نفیس نہ کر پائی۔ ازمنہ قدیمہ اور قرونِ وسطیٰ کے کروڑوں بصری مناظر بِن دیکھے ہی سپردِ خلا ہو گئے۔

جن کے بعد ان پر اپنی اپنی مرضی کی تواریخ رقم ہوئیں اور حقیقتیں یکسر اجنبی رہیں۔ ذرا چشمِ تصور سے دیکھیں تو اقوامِ عاد و ثمود اور نوح و لوط کیمروں کی آنکھ سے کتنے محفوظ تھیں۔ دنیا ان کے کارناموں کے بصری تجسس سے نا آشنا رہی۔ زلیخا کے الزامات کی قلعی بھی کھل جاتی ۔ اموی، عباسی اور عثمانی خلفاء بھی اپنے درباری مورخین کے سبب خاصے معتبر ٹھہرے ہیں۔

کاش محمد شاہ رنگیلا کے دور میں ۳۶ تصویروں والا کیمرہ ہی میسر ہوتا تو کیا تماشہ لگتا۔ پھر ویڈیو کریسی کی صورت میں مغلوں، خلجیوں،غوریوں،لودھیوں اور ماضی قریب کے کچھ جنرلوں کے معاملات کیا ہوتے ؟ جبکہ بادہ خواری کی کثرت کے باعث غالب ہمیشہ مغلوب ہی رہتا اور ولی بننے کا ادنیٰ دعویٰ بھی نہ کر پاتا۔ ابراہیم ذوق کی فیس بک پہ غالب کی حالت کیا ہوتی؟ کیا الزامات، کیا دشنام اور کیا الم غلم کا سماں رہتا۔

ویڈیو کریسی کے بطن سے نکلی ” ٹک ٹاک “ تو روائیتی میڈیا سے بھی چار قدم آگے جا نکلی ہے۔ ایوانِ صدراور مینار پاکستان کے نام خوب روشن ہوئے ۔ سچ پوچھئے تو پوری سرکار ٹک ٹاک کیمروں میں بند ہوچکی ہے۔ مفتیانِ عظام بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور بدرجہ اتم شہرت پارہے ہیں ۔ اب سمجھے کہ علماء کیمروں کو حرام کیوں قرار دیتے ہیں۔ ا ب جان ،مال اور عزت کیمروں کی مرہونِ منت ہیں۔

پچھلے برس لاہور کی خوبرو مغنیہ بھی نقش بر آب بنانے کے شوق میں اک موبائل والے کے ہاتھوں خود ہی وائرل ہو بیٹھی ارو محدود مدت کیلئے تائب ہو نے کا عزم بھی کرلیا۔ نہ جانے سیکستھ جنریشن وار کی وحشت ہمیں کہاں لے جا کر دم لے ۔بقول جان ایلیا ،
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :