لائی حیات آئے،وباء لے چلی، چلے

منگل 13 اپریل 2021

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

عہدِرواں میں دنیا بازیچئہ آفات ثابت ہوئی ہے جہاں ڈینگی مخلوق کے پیچھے تو کرونا آگے ہے ۔گلوبل ویلج میں وباؤں کا گلوبل ہونا اچنبھے کی بات نہیں ۔سبھی ہی خالق و مخلوق سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔پچھلے برس کرونا کی پہلی لہر میں امیر ، غریب ، ابتر و حَسیں سب لاک نشیں رہے ۔ کچھ طبقات ابتلائے وباء سے بے مراد ٹھہرے تو چند با مراد بھی ہوئے۔

مزدور اورکاروباری حضرات فاقوں میں گھِرے جبکہ طبی عملہ اور پولیس جان ہتھیلی پہ رکھے مصروفِ کار رہے ۔ سرکاری دفاتر کی بندش سے کلرکوں اور کچھ افسران کو محض اپنی ہی تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑا توکچھ اپنی جیب اور اپنے گھر سے کھانے پہ مجبور ہوئے ۔بیوٹی پارلرز کے متعلقین و منحصرین کے اپنے ہی دُکھڑے تھے۔کچھ کا کام رُکا تو کچھ کی وضع قطع متاثر ہوئی تاہم ماسک پہننے سے کسی حد تک رخِ نا زیبا کی لاج باقی رہی ۔

(جاری ہے)

ٹرانسپورٹرز بھی بمشکل زندگی کی گاڑی دھکیلتے رہے جبکہ خواجہ سراء اور شوبز سٹارز سخت مایوس ہوئے ۔ شاپنگ کی رسیا خواتین کیلئے رنج ،الم،خسارے اور کڑی آزمائش کا دور تھا ۔عشاق کو تو عقل اور وٹامن ” شی “کی شدید کمی کے امراض لا حق ہوگئے ۔محافل و مجالس کے عدم انعقاد کے باعث علماء حق اورعلماء سو کی شعلہ نوائیاں معدوم ہوئیں جبکہ ان کے ہمراہ مدحت سراؤں اور دیگر گائیکوں کوبھی اپنی روزی روٹی چاند میں دِکھنے لگی ۔

کریانہ و میڈیکل مالکان کے ہاں تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ پڑاجو بجز کرونا ممکن نا تھا ۔ ماسک سازی ،سینیٹائزراور ڈیٹول کمپنیوں کے سر پر تو جیسے ہما آ بیٹھا ۔سب سے سعید و خوش نصیب مخلوق طلباء و اساتذہ تھے ۔پانچوں تو کیا ان کی بیسوں ہی گھی میں رہیں اور آج کرونا کی تیسری لہر میں بھی ”شفقت “کی بے جا شفقت کی ،، مراد ،،لئے منتظر ہیں ۔یہی وہ مثالی گروہ ہے جس نے لاک داؤن کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے تا قیامت حکومت سے تعاون کا یقین دلایا ۔

دوسری جانب سرکارِ بے سروکار کرونا سے اموات کے نا کافی اعداد وشمار پرمطمئن نہیں کیونکہ ان حالات میں امدادی اور قرضہ جاتی معاملات کا پنپنا مشکل ہے ۔سمارٹ لاک ڈاؤن در اصل سمارٹ مذاق ڈاؤن ہے جس سے محض لوگ ڈاؤن ہونے کا امکان ہوتا ہے ۔پاکستانی عوام سے ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ حفظانِ صحت کا خیال نہیں رکھتے اور گھر ،گلی محلے کی صفائی کی بابت ہاتھ خاصا تنگ رہتا ہے ۔

تاہم پہلی بار یہ کوتاہیاں اور کوڑا کلچر رنگ لایا ہے اور ہماری غیرمعمولی قوتِ مدافعت سے کرونا چکرایا ہوا ہے ۔کہتے ہیں کہ خوشیوں ،غموں اور آفات کو جھیلنا پارٹ آف لائف ہے جبکہ ہر حال میں خوش رہنے کی کوشش ،، آرٹ آف لائف ،، ہے ۔وقت تو ہوتا ہی گزرنے کیلئے ہے اسے ہنس کے گزاردیں یا رو کر: مانا کہ اس وقت دنیا کو شدید رنج و خوف سے سابقہ ہے مگر یہاں مایوسی اور خوف کی بجائے حوصلے اور احتیاط کی ضرورت ہے ۔

بھلے فریب سہی ،خود اور دوسروں کو مایوسیوں سے نکال کر خوش رکھنے کی کوشش کی جائے ۔ اب ہم اپنے زمانے اور اپنے حصے کی آزمائش بھگت رہے ہیں ۔ ان حالات میں محض غموں کی تجارت کی بجائے تھوڑی سی تبسم فروشی بھی درکار ہے ۔درجن بھر نور ہائے نظر کے حامل خاندا نوں کو اپنے ہی گھر میں رہنا محال ہوا ہے ۔گھر میں محصور شوہر اور شاعر کا دماغ یا تو چل جاتا ہے یا پھر چل پڑتا ہے ۔

سیانے شوہر بار بار ہاتھ دھونے سے کترا رہے ہیں کہ کہیں دوسری شادی کی لکیر ہی نہ مٹ جائے ۔دوسری طرف کچھ سیانی بیویاں ہاتھ دھوتے شوہروں کے ہاتھوں میں برتن تھماتی بھی دیکھی جارہی ہیں ۔اندر کے بت عین سلامت مگر باہر اذانوں کا شور معنی خیز ہے ۔گویا ہم دافع البلیات اعمال کے کم اور داعی البلیات سرگرمیوں کے زیادہ خوگر ہیں ۔ چودہویں صدی کے طاعون کے سدِباب کیلئے مصر اور شام میں کی گئی اجتماعی دعاؤں کے بعد مرض دگنا ہوگیا ۔

پیروں اور عاملوں کے منتر بھی ہوا ہوئے ۔اب قریب کے پھونکوں کی بجائے صرف فلائینگ دم پھونکوں کی کچھ گنجائش باقی ہے ۔ اور ہم بھی اس بحث میں الجھے ہیں کہ ملک میں وارد پہلا کرونا حاجی تھا ،زائرتھا یا کرکٹر۔ان سے تو شاعر بھلے کہ ہر وقت موت کی خواہش رکھنے کے باوجود غالب نے وبائے عام میں مرنا اپنی شان کے خلاف سمجھا اور وبائی علاقے سے بھاگ نکلے۔

اک خیال ہے وکلاء کے سوا سب طبقات متاثر و مہجور ہیں۔ٹیچرزبھی کام،کاج اور اناج والے محاورے پہ کار بند ہیں البتہ پولیس اور ڈاکٹرز خوب تحسین سمیٹ رہے ہیں ۔ان دنوں دانش و تحقیق بھی معراج پر ہے ۔اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہے ۔آفات بھی انسان کو بزورِ شمشیر سدھارنے کا موجب ہیں اور ڈیڑھ اینٹ والی انسانیت کچھ کچھ ” نسلِ آدم “ لگنے لگی ہے ۔

فضول خرچیاں اور غیر ضروری سرگرمیاں معطل ہیں۔ لبرلزکے تمام کاموں میں صرف ” اللہ “ کی مرضی چل رہی ہے ۔ اکھیوں کو اکھیوں کے آس پاس رکھنے کی خواہشات دم توڑ رہی ہیں بلکہ محبت کی کسوٹی میں بھی چھ فٹ کی دوری طے ہوچکی ہے ۔ اس وبائی اعتکاف میں ہاتھ دھو کر گھر بیٹھنے کے سبب صفائی اور سماجی فاصلے کی باتیں کھوپڑی میں سمانے لگی ہیں ۔ بِن بلائے مہمانوں،افسوسی حضرات اورمبارکبادی طبقات سے نجاتِ کاملہ کے ایام ہیں ۔

یہ واحد بیماری ہے جس کے علاج کیلئے بیرونِ ملک جانے کا کوئی نہیں سوچتا ۔ یہ عجیب عارضہ ہے کہ جس کا مداوا تنہائی ہے اور شہروں کا اجڑنا بقا ہے ۔اب تو لوگ ایک چہرے پہ کئی چہرے سجائے پھرتے ہیں۔اس سے قبل ڈینگی بھی عریانی و فحاشی کے سیلاب کے آگے بند باندھ چکا ہے ۔پھر لوگوں کے لائف سٹائل اور تہوار پسندی کے باعث زندگی نا قابلِ بسر ہے لہٰذا یہ وباء قدرت کی جانب سے تجدیدِ الست کی کال ہے ۔

میل جول ، بیمارپرسی ،شادی و مرگ ،اجتماعات،بازار ،خانقاہیں،تعلیمی ادارے اور پبلک مقامات شدید متاثر ہورہے ہیں ۔ میلے ٹھیلے ،شوبز کی بے لباس شوٹنگز،ہنی مون ، ٹرپس اور عشقیہ و معشوقیہ سر گرمیاں تو منہ کے بل جا گری ہیں ۔حتیٰ کہ شرعی ازدواجیت کو بھی خطرات لا حق ہیں ۔تاریخ بتاتی ہے کہ بنی نوع انسان ازل سے ہی ایسی آفات کا شکار رہا ہے ۔

طاعون کے زمانے میں لاکھوں لوگ لقمہء اجل بنے ۔ لوگ اپنے گھر والوں کے علاج اور تدفین سے بھاگتے تھے اورسینکڑوں کو گڑھے کھود کر اکھٹے دفن کرتے تھے ۔ اب نیک و بد ، موحد و ملحد،مسٹر و مولوی ،پنڈت و پیرکا سوال باقی نہیں رہا ۔ جب روم ، مسجد اقصیٰ، مسجدحرام،آستانے،مسجد مندر اور سب دیر وحرم مقفل ہیں اورہر طرف ہُو کا عالم ہے ۔حتیٰ کہ کرونا کے مریضوں کو کہیں کہیں غیر انسانی اقدامات سے تلف بھی کیا جارہا ہے ۔گویا میر درد کی ایسے جینے کے ہاتھوں مر نے کی بات سچ ثابت ہورہی ہے ۔
اس تناظر میں ڈاکٹر عمران ظفر کی یہ پیروڈی نہائت بر محل ہے
لائی حیات آئے وباء لے چلی ،چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :