مذہبی محافل اور ادب کا فقدان

پیر 22 نومبر 2021

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

اک مسلمان کیلئے رسول اللہ کی اطاعت،محبت اورمدحت سرمایہء زیست ہے۔اس ہستی کی ثناء پہ کیا کہیں کہ جس پر خالقِ دو جہاں خود سلام بھیجتا ہے۔ آپﷺ افضل البشر اورافضل الانبیاء ہیں لہٰذانعت گوئی،نعت خوانی اورمحافل کے انصرام میں ادب کے قرینے اور تقاضے ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پیر مہر علی شاہ جیسی ہستی نے مدحت لکھتے وقت عاجزی کا اظہار یوں کیا،
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
پیر نصیرالدین نصیر کے ہاں بھی نعت لکھنا اور کہنا تلوار کی دھار پہ چلنے کے مترادف ہے۔

مگر آج ہم ان تقاضو ں کو فراموش کرتے ہوئے نعتیہ محفلوں کو بھی عمومی و عوامی رنگ دینے میں لگے ہیں۔دور نبوی ،خلافت راشدہ اور چندسال پہلے تک محافل میلاد کے انعقاد کا انداز ، ادب اور شائستگی پہ مبنی تھاجب اعظم چشتی، حفیظ تائب،مظفر وارثی،منظورالکونین اور زبید رسول ایسی محافل میں مہذب انداز میں ہدیہء تبریک پیش کرتے تھے۔

(جاری ہے)

میڈیا کی رینکینگ زدہ کارروایئوں نے مذہب کے تقدس کو نظر انداز کرتے ہوئے بھیڑ چال کے عادی لوگوں کو مذہبی محافل میں بھی گلیمرائیزڈ کر دیا ہے۔

شب برات کو تو پہلے ہی دیوالی نما بنا کر شرلیوں پٹاخوں کے حوالے کر چکے تھے ۔ عاشورہ پر بھی طرح طرح کی شبیہات موجود تھیں پر اس بار عراق میں امامِ عالی مقام کے سر مبارک کو لے دربارِ یزید لے جانے کا ڈرامہ تک کرلیا گیا۔ ادھر میلاد کے نام پر ہمہ قسم ہلچل،آتش بازیاں اور شبیہہ سازیاں،ریلیاں حتیٰ کہ ڈھول اور رقص بھی متعارف کروا یا جا رہا ہے ۔

بزرگان کے اعراس پہ ان کے مزارات اور قبرستانوں میں زور دار آتش بازی کے مظاہرے کرکے عجیب قسم کی عقیدت اور عشق کا اظہار کیا جاتا ہے حالانکہ یہ سب اسلام میں کسی صورت بھی پسندیدہ نہیں ہیں۔آج ممبر رسول پہ براجمان ہوکر دوسرے مسالک اور علماء کو گالیوں اور فتووئں سے نوازاجاتاہے جبکہ رسول خدا نے تو گالیاں سن کر بھی دعائیں دیں۔ آپ محض رحمت اللمسلمین نہیں بلکہ رحمت اللعالمین ہیں۔

آج کا عالم محفل میں لاؤڈسپیکر میں خوب گلہ پھاڑ پھاڑ کر سیرت النبی کی بجائے دوسروں کی تذلیل کرتا نظر آتا ہے۔نعت خواں تو حد سے گزرتے جا رہے ہیں اور عجیب وغریب انداز میں نعت کے تقدس کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہزاروں روپے طے کرکے آ نے والے سٹیج سے اترنا اور مائیک چھوڑنا ہی بھول جاتے ہیں اورماہر ایسے کہ کنجو سوں کی زبانوں سے داد او ر جیبوں سے پیسے نکلوا لیتے ہیں۔

جاتے جاتے اجازت کے بہانے مزید رقم کے تقاضے بھی کرتے ہیں۔ ثناء خوان راگوں ،لوگ گیتوں،فلمی دھنوں اور خاص کر بھارتی فلمی گانوں کے بغیر ثناء پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتے اور نہ ہی آج کے عشاق کو شائستہ نعتیں پسند آتی ہیں۔ الفاظ کی بجائے مشہور طرزوں ،نازو انداز اور بھیروی، سندھڑا اور پہاڑی کے راگوں کے الاپ پراش اش ہوتی ہے۔بعض ثناء خواں لکھنوی اور نسوانی وضع قطع اپنائے ہوئے ہیں۔

دووران محفل مک مکا اور لین دین کے جھگڑے بھی چلتے ہیں ۔ ہماراعقیدہ ہے کہ آقا اپنی یمحفل میں ضرور تشریف لاتے ہیں۔اب ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ نبی کی موجودگی میں چیخ کر زوردا ر آواز میں بولنے کی ہمت ہو سکتی ہے؟،کیاتوہین آمیز اسلوب میں نعت پڑھنے اورلکشمی کانت پیارے لال کی دھنوں پر مبنی مدحت پہ سر دُھنا جا سکتا ہے؟۔ کیا ،، میرا ماہیا میرا ڈھولنا اور تیریاں نیئں ریساں،، کہہ کر آ پ کو مخا طب کیا جا سکتا ہے ۔

کیا آپ کے سامنے اکڑ کر نوٹوں کی ویلیں دی جا سکتی ہیں؟۔ کیا آپ کے سامنے دھاڑ دھاڑ کرنعرے لگا نے اور شورغل کی گنجائش ہے حالانکہ اللہ تو صحابہ کرام کو بھی نبیکی آواز سے اپنی آوازیں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ محبت کے قرینوں میں ادب ہی تو پہلا قرینہ ہے۔ آنحضور نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلند آواز میں ذکر سے یہ کہہ کر روک دیا کہ کیا تیرا رب آہستہ ذکر نہیں سنتا؟ دوسروں کا خیال کرو۔

حد تو یہ ہوئی کہ امسال محافل ِ میلاد میں حوروں کو بھی شامل رکھا گیا اور عشاق نے عشقِ رسول ﷺ کے ساتھ جمالیاتی منفعت سے بھی حظ اٹھایا ۔ تاہم ایک آدھ حور اور ہزاروں عاشقان کی طلب و رسد میں توازن کا فقدان نظر آیا۔ خدشہ ہے کہ مستقبل میں یہ پاکھنڈ بھی میلاد کے لوازمات میں لازم نہ ٹھہرجائے ۔ دیکھا دیکھی اب عورتوں کے میلاد کا رواج بھی عام ہے ۔

ٹی وی پہ بے پردہ خواتین بن سنور کرپوری دنیا کے سامنے فلمی طرزوں پہ نعت پڑھتی ہیں اور لمحہء فکریہ ہے کہ مخلوط محافل کا انعقاد بھی دیکھا جا رہا ہے۔ گھروں میں ایسی محافل صدیوں سے ہوتی آئی ہیں مگر اب ان میں بھی ادب کے تقاضے مفقود ہو رہے ہیں۔لباس کی نمود و نمائش، لاؤڈ سپیکر کا استعمال،وی آئی پی ٹریٹمنٹ اور ہلہ گُلہ محفل کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

ماڈرن فیمیلیز کی خواتین نے تو محفل میلاد کی تیاری کیلئے بیوٹی پارلر ز بھی جانا شروع کردیاہے۔ کچھ پیر اور بابے اپنے عقید ت مند مردوزن کے ہمراہ ایسی محفلوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں کہ عالم وجد میں میر مجلس کی ریشِ سفید اور خواتین زائرین کی زلف ہائے سیاہ باہم لپٹ جاتی ہیں۔ قوالی کے انداز میں غزلیں اور گانے عام ہیں او ر اب نعتوں کو بھی یہی اسلوب دیا جارہا ہے ۔

اسی لیئے اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں باور کرایا تھا کہ
طبع مشرق کے لئے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہ تھا علم الکلام
ا س ضمن میں باشعور اور اعتدال پسند علماء ، اساتذہ اور مشائخ سے مصلحانہ کردار ادا کرنے کی التجا ہے۔ عشقِ رسول اور شاہ و گدا کے تصور سے کچھ آگے سوچا جائے ۔عملی زندگی کے بہت پہلو تشنہ ہیں ۔

رسالت مآب نے بھیک مانگنے والوں کو کاسہ کی بجائے کلہاڑا دیا تاکہ با عزت روزی کما سکیں ۔اسلام کی اصل روح سے ایسی محفل میں کہیں بھی تعارف نہیں کروایا جا رہا ہے ۔ ا لیکٹرانک میڈیا سے خیر کی توقع عبث ہوگی۔آخر میں جناب حفیظ تائب کے چند نعتیہ اشعار جو ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں۔
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے بھلا،ہم سے ناکردہ کار، اُمتی یا نبی
سچ میرے دور میں جرم ہے،عیب ہے جھوٹ فنِ عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل وبے راہروی ایک آزار ہے آگہی یا نبی
یا نبی اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دئیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی
اب کہنا بجا ہوگا کہ مذہب دور کسی کونے میں بیٹھا روتا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :