تُزکِ عمرانی ۔ (شفیق الرحمٰن سے معذرت کے ساتھ)

منگل 28 ستمبر 2021

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

اہلیہ ء سوم اورٹی وی کے توسط سے خبر پائی کہ ناقدین نے ہم پر طرح طرح کی افتراء پردازی شروع کر رکھی ہے۔ اگرچہ ہم مقامی مبصرین کی لگام بندی بطریقِ احسن فرما چکے ہیں تاہم غیر ملکی بک بک کا جواب از حد ضروری ہے ۔سنا ہے لوگوں نے ہمارے متعلق ایک نہائیت بے ہودہ کہاوت ،، شامتِ اعمالِ ما با صورت ِ عمراں گرفت،، گھڑ رکھی ہے ۔خبر ہوتی کہ ہمارے اقتدار میں آنے پر یہ اودھم اور غُل غپاڑے مچیں گے تو کبھی گیٹ نمبر تین کا رُخ نہ کرتے ۔

ہم تو چوروں اور ڈاکوؤں کی گوشمالی کے واسطے آئے تھے اور غریب کو اوپر لے جانا بھی مقصود تھا لہٰذا اوپر سے نصرت ناگزیر ٹھہری۔ سو بوٹ کی شان میں سر زد گستاخیوں پہ سخت نادم ہوئے اورعروجِ آدمِ ِ خاکی کی حقیقت پا کر فوراََ رجوع کرلیا۔

(جاری ہے)

پھرہم اقتدار میں آنے کی وجوہات پر غور فرمایا اور نہائیت عرق ریزی کے بعد درج ذیل وجوہات گھڑ لیں ۔ ،

ہمیں باور کرایا جاتا رہا کہ ہم تاریخ کے مقبول ترین انسان ہیں مگر دو عشروں کی سر توڑ کوشش کے با وجود ہم تخت پر جلوہ افروز نہ ہو پائے تھے سو بطفیلِ پاپوشاں شیر وانی پہننا غنیمت سمجھا ۔مزید یہ کہ اپنی دو سو ماہرین کی ٹیم کو اس ملک کیلئے آزمانا بھی ضروری تھا ۔
 2۔ ہمار ے پائے کا کوئی شخص سلطنت میں دستیاب نہ تھا تو بلا شرکتِ غیرے ہم شہنشاہ بنے۔

نیز ریاست مدینہ کے نعرے کیلئے ہم سے موزوں کوئی دوسرا نہ تھا ۔
3۔ پچھلے حکمران گھاس کھا کر ملک سنوارنے کادعویٰ کرتے تھے ۔ہمارے دل میں درد اٹھا کہ اگر ساری گھاس ہم گھا گئے خطے کی بکریاں،گائیں اور بھینسیں کیا کھائیں گی۔سو ہمارے آئے بنا اس بدعت کو روکنا ممکن نہ تھا ۔
4 ۔ہمیں ثابت کرنا تھا کہ ہمارے دور میں کتا بھی کسی دریا کنارے نہ مرے گا ۔

لہٰذا سگ پروری کرتے ہوئے ہم نے انہیں اپنے محل میں مقام عطا کیا ہے ۔
5۔ کرپٹ چوروں کا خاتمہ ہمارے بغیر ممکن نہ تھا ۔سو اقتدار میں آکر سخت قدم اٹھائے اور ادویات شدید مہنگی کیں تاکہ بیمار بد عنوان عناصر کو علاج میں مشکلات پیش آئیں اور کڑھ کڑھ کر مریں۔
6۔ ہمارا آنا اس واسطے بھی لازم تھا کہ معصوم عوام کو سابقہ حکمرانوں کے کرتوت ہائے سیاہ سے آگاہ کیا جائے۔


7۔ چونکہ ہم انصاف کے علم بردار تھے لہٰذا عملی انصاف کی خاطر اقتدار میں آکر زنجیرِ عدل کی تنصیب چاہتے تھے۔ جب علم ہواکہ وہ زنجیر ہمارے سیاسی حریف کی اتفاق فاؤنڈری میں بنی ہے تو ارادہ ترک کرنا پڑا۔تاہم معیشت میں بہتری آتے ہی زنجیرباہر سے منگوا لی جائے گی ۔
تخت پر براجمان ہوتے ہی ہم نے شاہی محل کو درس گاہ بنانے کا حکم دیا۔ادھر شاہی محل میں بنے بھینسوں کے واڑے نے ہمارے جذبات شدید بر انگیختہ کر دئیے۔

چونکہ ہم بین بجانے کے فن سے نا آشنا تھے سو بعوض چوبیس لاکھ سکہ رائج الوقت ان منحوسوں کا قلع قمع فرمایا ۔ ،، چہ ارزاں فروختند،، کا شور اٹھاتو مشاعرہ کروا کر رقم مصرف میں لائے۔ یوں کرپشن کے الزام سے بھی محفوظ ہوئے۔ مخالفین کی ،، ہنوز تبدیلی دور است ،، اور ،، عمران بڑا اپدیشک ہے ،،کی لغویات بغض و کینہ پر مبنی ہیں ۔ہم پر سیاسی حریفوں کو دبانے کا الزام ہے ۔

ہم ببانگِ دہل اعلان فرماتے ہیں کہ ان کو زجرو توبیخ کے ذریعے زچ کر کے زک پہنائی جائے گی۔مصمم ارادہ ہے کہ ہم کرپٹ ٹولے کو نہیں چھوڑیں گے اورلوٹے ہوئے لاکھوں روپے وصول کرنے کیلئے اربوں روپے لگانے سے بھی دریغ نہ کریں گے ۔آخر ذمیہ کام اور وژن بھی کوئی چیز ہے ۔ تاریخ گواہ کہ اتنی قلیل مدت میں جو اعزازات ما بدولت کو ملے کسی اور حکمراں کو نصیب کہاں؟ ۔

سبز باغوں کے وعدوں،دعوؤں،بڑھکوں اور بیرونی قرضوں کی بابت اک عالَم ہمارا معترف و معتقدہے ۔ ہماری روحانیت کا لوہا سب مانتے ہیں کیونکہ ہم کسی کے ” مرید “ ہوکر بھی اسی کے مجازی خدا لگے ہوئے ہیں ۔ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ہمارے بے ہودہ مخالفین ہماری کثیرالازواجی میں کیڑے مکوڑے نکالتے رہتے ہیں۔ہم انہیں بتاناچا ہتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی ایسی حاجت نہیں رہی۔

وہ تو چند ایک خود ہمارے ساتھ ہو لیتی رہی ہیں ۔کچھ نے تو اس عجلت و اشتیاق میں عبوری مدت کو بھی گھاس نہ ڈالی۔ ستر سالوں میں حکرانوں نے اس قوم کو دھوکے سے صرف چار موسموں پر ٹرخا رکھا تھا ،ہم نے آتے ہی بارہ موسموں کی نوید دی ۔کرکٹ جیسے موذی کھیل پر پیسے کا ضیاع جاری تھا ۔یہ ہمی ہیں کہ فرنگی ٹیموں کے پھٹیچر اور ریلو کٹوں کو بغیر کِھلائے منہ کی کھا کر لوٹنے پر مجبور کردیا۔

معترضین ہم پر ڈالر اور پٹرول مہنگا کرنے کی تہمت بھی دھرتے ہیں۔انہیں بتلاؤ کہ سابقہ الو حکمرانوں نے تو ڈالر مصنوعی طور پر سستا کر رکھا تھا جس کی وجہ سے ہمارا روپیہ مہنگا ہوتا جارہا تھا۔ہم نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر عوام کی خاطر روپیہ سستا کیا ۔یہ ہمی ہیں کہ پٹرول ایک سو پچیس تک محدود ہے ورنہ اس کی قیمت پانچ صد بھی تو ہوسکتی ہے۔ ہماری تشریف آوری سے پہلے نحیف ، مظلوم اور پارسا عوام پر ظلم کی پہاڑیاں توڑی جاتی تھیں اور وہ احتجاج کیلئے گلی گلی پھرتی تھیں۔

ہم نے انہیں گھبرانے سے منع فرمایا اور صبر سے ہر ظلم سہنے کے قابِل بنانے کی کوشش کی مگر خدا کی پناہ کہ ہم جیسی صادق،امین اور دیانت گزیدہ ہستی کے ہوتے ہوئے وہی عوام بد تمیزی ،نا شکری اور بد دیانتی پر اتر تی چلی گئی ۔ مہنگائی،لنگر خانوں ا ور نوکریوں کی بابت حشر سامانیاں کرتے ہیں ۔قرض لینے پر خود کشی کے وعدے یاد دلاتے ہیں ۔ ان نا ہنجاروں کو بتلاؤ کہ فی الوقت ملکی مفا د کیلئے خود کشی ہرگز ہرگز ممکن نہیں ۔

ہمیں یہ بھی یاد دلا کر چڑھایا جاتا ہے کہ حکمران چور ہو تو مہنگائی ہوتی ہے ۔یوں ہمارے غضب کو دعوت دیتے ہیں،کیا ان کو اللہ کے رازق ہونے کا یقین نہیں۔ پاکستانیوں یاد رکھو، جب تک اللہ نہ چاہے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔قادری بھائی نے تو بہت پہلے یہ بات بتا دی تھی ۔زندگی امتحان ہے اور سکون صرف قبر میں ہے ۔غور سے سن لو کہ ما بدولت کے خلاف ریشہ دوانیاں اور پروپیگنڈے بند کئے جائیں ورنہ جان لو کہ
” تبدیلی بہترین انتقام ہے “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :