با ادب ، با ملاحظہ ہوشیار

جمعہ 24 دسمبر 2021

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

 اردو کے مباحث میں غلط العام کاچلن عام ہے مگر چند ستم گزیدہ الفاظ تو معنویات کی دیوار میں ایسے چنوا دئیے گئے کہ شراب سیخ پر اور کباب بوتَل میں جا پڑا ہے ۔ ان کے جہانِ معانی میں زمین و آسمان کا فرق ہے پر اپنے متضاد معنی میں طمطراق سے مستعمل ہیں اور خوب ہیں۔ چنداں ملاحظہ ہوں۔
 مُغوی و مغویٰ
 سب کا ادبی اجتہاد ہے کہ مغوی اغوا ہونے والے متاثرہ فرد کو کہتے ہیں۔

اکثر سنتے ہیں کہ پولیس نے مغوی کو ڈاکوؤں کے قبضے سے چھڑوا لیا۔ مگر مقام حیرت ہے کہ مغوی کا اصل معنی اغوا کرنے والا ہے جسے ہم مدت سے الٹ مفہوم میں برتے جارہے ہیں ۔ اصل میں اغوا کار مغوی اور اغوا ہونے والا ” مغویٰ “ ہے۔
 مُتوفی و مُتوفی ٰ
 ہمارے ہاں اکثر مرنے والے کو متوفی کہا جاتا ہے جو غلط ہے ۔

(جاری ہے)

متوفی فاعل ہے اور موت دینے والے کیلئے ہے جبکہ فوت شدہ کیلئے درست لفظ متوفیٰ ہے ۔


 راشی و مرتشی
 عموماََ رشوت لینے والے کو راشی سمجھا جاتا ہے حالانکہ راشی رشوت دینے اور مرتشی لینے والا ہے ۔
 بتاریخ اور مئو رَخہ
 بتاریخ حال اور مستقبل کی بابت درست ہے جبکہ مورخہ ماضی کیلئے مستعمل ہے ۔مثلاََ حامد کی شادی بتاریخ پندرہ دسمبر کو ہوگی۔ اگر ماضی میں اطلاع مقصود ہو تو ، حامد کی شادی مورخہ دس اگست کو تھی۔

تاہم انہیں ہم حسبِ ضرورت و منشا لکھتے پڑھتے ہیں ۔
 استاد اور استاذ
 دونوں میں فرق نہیں سمجھا جاتا مگر صحت کے اعتبار سے استاد ہر قسم کے عملی و فنی کام سکھانے والے کو کہتے ہیں جبکہ استاذ صرف فکری، علمی ا ور کتابی شعور دینے والے کے لئے ہے ۔ استاد کی جمع اساتید اور استاذ کی جمع اساتذہ ہے ۔
 جناب اور جنابہ
اکثر لوگ خواتین کو مخاطب کرنے کیلئے جنابہ لکھ دیتے ہیں جو غلط ہے ۔

اصلاََ خواتین و حضرات ہر دو کیلئے جناب ہی موزوں ہے ۔ بہتر ہے کہ خاتون کے لئے محترمہ لکھا جائے ۔ اگر نام میں صنف کی تمیز مقصود ہوتو جناب کے بعد صاحبہ لکھنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔
 قرض دار اور قرض خواہ
 عام طور پر مقروض کو قرض دار تصور کیا جاتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ قرض دار ،قرض دینے والا اور قرض خواہ لینے والا ہوتا ہے ۔


 تابع دار و تابع فرمان
 ہمارے ہاں تابع دار کی اصطلاح عاجزی کے اظہار کی علامت ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے اور تابع دار اطاعت کروانے والا ہے ۔ خدمت گار کا مفہوم تابع فرمان ہے ۔
 طَلَبہ اور طُلَبا
 طالبعلم کی جمع طَلَبہ ہے جب کہ کسی بھی چیز کے طالب کی جمع طَلَبا یا طَلاب ہے ۔

تاہم دونوں ہی طالب علموں کے مستعمل ہیں ۔خیال رہے کہ طَلبہ کے ط پر زبر جبکہ طُلبا کے ط پر پیش ہے اور دونوں کی لام مفتوحہ ہے ۔
 مشکور ، شکر گزار
 یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ مشکور کا درست مفہوم بھی عدم تفہیم کا شکار ہے ۔ اس کے معنی شکر گزار کے نہیں بلکہ مشکور اس شخص کے لئے مختص ہے جو کسی پر احسان کرے اور اس کاشکر یہ ادا کیا جائے ۔
 آخر میں التماس ہے کہ ” برائے مہربانی “ اور ” براہِ مہربانی “ کی دھینگا مشتی میں احباب راہنمائی فرما کر ہمارے مشکور ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :