حیات ِ واہیات

ہفتہ 13 نومبر 2021

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

انسان دنیا میں حیات ِ مستعار برائے بندگی لے کر آیامگر اک واضح اکثریت اس حیاتِ انسانی کو ” حیاتِ واہیات “ بنانے کے در پے ہے ۔معاشرہ میں شر کا لفظ موجود ہے جبکہ بشر میں تو شر کا عنصر مزید واضح ہے ،بقول شاعر
طالبِ خیر نہ ہونگے کبھی انسان سے ہم
نام اس کا ہے بشر اس میں ہے شر دو بٹا تین
قومی و مسلکی سطح پر ہم برہم مزاج ٹھہرے ہیں اور سوائے جذبات کے کچھ نہیں رکھتے۔

نگاہ پست،سخن دلخراش اور جاں بے سوز ہو چلی ہے ۔شمع بجھنے کے ساتھ پروانہ بھی مر کھپا ۔ کتابِ مبین ایصالِ ثواب اور مرضی کے دلائل کی کتاب ٹھہری اور مقام بیچ کر مکان پیدا کرنے کی رسم چل نکلی۔صیاد و باغبان کی ملاقاتیں اپنا مقدر ہیں۔ گل ِ کاغذ مہارتوں سے گلشن میں سجے ہیں اور ہر شاخ پر الو براجمان ہیں ۔

(جاری ہے)

پاکی ء داماں کے سر خیل کہہ مکرنیوں کی ڈھال لئے ہیں ۔

ریاست کو کوئی یوٹوپیا تو کوئی ڈسٹوپیا ثابت کرنے پہ تُلا ہے ۔ علما اور قائدین کی شعلہ نوائیاں لوگوں کے سر پھٹنے پر منتج ہیں ۔ مذہبی محافل میں غلو کی معراج ہے اور ان میں اب شبیہات اورحوروں کا نزول بھی یقینی بنایا جارہا ہے ۔ اب تشدد بھی دین کا حصہ بنایا جاچکا ہے ۔ کسی نے خوب لکھا ہے
کسے خبر تھی کہ لی کر چراغ ِ مصطفوی
جہاں میں ٓگ لگاتی پھرے کی بو لہبِی
تعلیمی اداروں میں سوائے درس و تدریس سب کچھ ہورہا ہے ۔

آبادی کی سونامی ام المسائل ہے مگر بقول یوسفی اپنے کرتوتوں کو بزرگوں کی دعا اور فضل ِ ربی سمجھا جاتا ہے ۔ پھر تبدیلی نے ناکوں چنے چبواکر ارمان ہی ٹھنڈے کر دئیے ہیں ۔تازہ ہوا کے شوق میں اتنے در بنا لیتے ہیں کہ دیوار ہی گرنے لگتی ہے ۔ایسے میں آسمان کی بلندیوں میں براجمان لوگ زمین کے مسائل کیونکر جانیں؟۔ با اختیا ر جوابدہ نہیں اور جوابدہ با اختیار نہیں ۔

صفائی نصف ایمان ہے ،یوں آدھا ایمان تو ہاتھوں سے جاتا رہا اور باقی بھی ریا کاری و رعونت کی بھینٹ جا چڑھا ۔ اب لوگوں کا مطالبہ بجا ہو گا کہ ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے دور میں لئے قرضے خود واپس کرے۔ نیز تاریخ کے ساتھ انصاف ہوگا کہ ان جماعتوں کو با لترتیب کشکول،پاپوش، کیوی و چیری شو پالش،پٹرول پمپ جیسے انتخابی نشانوں سے نوازا جائے ۔اب شہروں کے نام اسمائے با مسمیٰ ہونا بھی لازم ہیں کہ انہیں ٹیکس لاء ، لیا ہور ، این آر او وال ، کماء لیا ، پاپوش نگر ،صدقہ آباد اور ڈیرہ قاضی خان سے منسوب کیا جائے ۔

ہر طرف شر پرستی، کار شر اور ذکرِ شر ہے ۔مستزاد ایسی جہالت کہ توہینِ جہالت بھی شرما جائے ۔جہاں مذہب،سیاست اور معاشرت میں رواداری، وضع داری ارو دلیل کا قحط ہو تو اس حیات کا ” حیات ِ واہیات “ ہونا اچنبھے کی بات کہاں اور کیوں ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :