
عمران خان، نواز شریف اور بھٹو ایک ہیں
اتوار 29 جنوری 2017

عمار مسعود
(جاری ہے)
عمران خان کی مثال سے بات شروع کرتے ہیں۔ عمران خان اس ملک کا سب سے بڑا ہیرو تھا۔ کرکٹ کا ہر میدان خان صاحب کی موجودگی سے جگمگاتا تھا۔ دنیا بھر کی مقبول ترین شخصیت۔ ملکوں کے سربراہ خان صاحب سے ہاتھ ملانے کی خواہش رکھتے تھے۔ اہل اقتدار تصویر بنوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ ملکہ برطانیہ چائے پر بلاتی تھیں۔ دنیا بھر کی خواتین ایک نظر کو ترستی تھیں۔ انیس سو بانوے کے ورلڈکپ کے بعد تو پاکستانی قوم نے اپنا سب کچھ خان صاحب پرنچھاور کر دیا۔ اس وقت کے صدر ریٹائر منٹ کا فیصلہ واپس لینے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ جدھر جاتے لوگ دل قدموں میں رکھ دیتے تھے۔اس موقعے پر خان صاحب نے شوکت خانم کا عظیم منصوبہ قوم کے سامنے پیش کیا۔ ساری قوم ایک ہی مقصد میں جت گئی۔ بچوں نے لنچ کے پیسے اور عورتوں نے زیوارت تک بیچ ڈالے۔ عمران خان پہلے سے بھی زیادہ عظیم ہو گئے۔کسی کی جرات نہیں تھی عمران خان کے خلاف بات کرنے کی۔سب ہی دل سے محبت کرتے تھے۔ پھر خان صاحب سیاست میں آگئے۔ اتنے برسوں میں سیاست میں کیا کمایا کیا گنوایا یہ الگ بات ہے مگر اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اپنی پہلی بیوی سے علیحدگی ہو گئی۔ بچوں سے دوری مقدر بنی۔ دوسری شادی ہوئی اور وہ بھی سیاست کی نظر ہو گئی۔ اب آئے روز ہر کوئی ان کے منہ کو آتا ہے۔ کوئی کرپشن کے الزام لگاتا ہے۔ کوئی ذاتی زندگی پر اعتراض کرتا ہے۔کوئی پلے بوائے کہتا ہے۔ کوئی یو ٹرن کا لقب دیتا ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے مٹی پلید کر دیتا ہے۔ سوچئے اگر خان ساحب سیاست میں نہ ہوتے تو کیا کسی کی جرات تھی ایسی بات کرنے کی؟بنی گالہ جیسے پچاس گھر ہوتے ، چار شادیاں ہوتیں ، بے شمار دولت ہوتی تو کیا کسی نے سوال کر نا تھا؟
غور کریں تو شریف فیملی کا بھی یہی حال تھا۔ ساٹھ اورستر کی دہائی میں پاکستان میں سٹیل کے کاروبار کے لیے صرف اتفاق سٹیل کا نام لیا جاتا تھا۔ اچھے کام کی شہرت صرف ملک میں ہی نہیں ساری دنیا میں تھی۔ مڈل ایسٹ کے کاروباری حلقوں میں خصوصی طور پر اتفاق فاؤنڈریز کا نام احترام سے لیا جاتا تھا۔ فیکٹریاں آئے روز بچے دے رہی تھیں۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ بھٹو دورمیں اداروں کو قومیانے کی مہم چلی تو کاروبار کو بیرون ملک منتقل کیا۔ ضیاء الحق کے دور میں جنرل جیلانی نے اس خاندان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے متعارف کروایا۔ نواز شریف پہلے پنجاب کے وزیر خزانہ ہوتے ہوئے وزیر اعلی کے عہدے پر پہنچ گئے۔ ضیاء الحق کے جہاز کے حادثے کے بعد جب بے نظیر اور میاں صاحب کی دو، دو ، باریاں لگیں تو سیاست دانوں پر ایک دوسرے کے توسط سے سب سے زیادہ عتاب آیا۔ فائیلیں کھل گئیں۔ مقدمات بن گئے۔ فون ٹیپ کیئے جانے لگے۔ ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات لگنے لگے۔ گھروں کی بہو بیٹیوں کے نام سرعام لئے جانے لگے۔ کبھی قید اور کبھی احتجاج ہونے لگا۔ تاوقتیکہ انیس سو ننانوے میں ایک صاحب نے کنپٹی پر پستول رکھ کر استعفی لینے کی بھی کوشش اور ناکامی کی صورت میں میاں صاحب کو دس سال کے لئے ملک بدر کر دیا گیا۔ مبینہ اقدام قتل کا مقدمہ بنا ۔ جائیدادیں قرق ہوئیں۔ گھر کا سازوسامان شفٹ کرنا پڑا ۔ رشتہ داروں پر زمیں تنگ ہو گئی ۔ ایک دفعہ وطن واپس آنے کی کوشش کی مگر ار پورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ واپس آئے تو پانچ سال بعد حکومت ملی۔ پھر پانامہ کا کیس کھل گیا۔ مریم نواز، حسن اور حسین نواز کا نام سامنے آنے لگا۔ ٹیکس کے گوشوارے سرعام زیر بحث آنے لگے کبھی تلاشی دینی پڑی کبھی رسیدیں دکھانی پڑیں۔ ہر کوئی منہ اٹھا کر تنقید کرنے لگا۔ اس مردانہ معاشرے میں ہر کوئی بیٹی کا نام سرعام لینے لگا۔ مخالفین بیہودہ الزامات لگانے لگا۔ لغو اور غلیظ ناموں سے پکارنے لگا۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر میاں صاحب سیاست میں نہ ہوتے تو تو کیا کسی نے پوچھنا تھا کہ کتنی فیکٹریاں ہیں؟ کون، کون سی آف شور کمپنی ہے؟ بیٹی کے نام کیا جائیدادہے اور بیٹوں کو کیا ملا ہے؟ والد نے جائیداد کا کب اور کیسے بٹوارہ کیا ہے؟ کیاکسی نے سوال کرنا تھا؟
بھٹو خاندان کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے ایک اعلی دماغ تھے۔ سندھ کے لینڈ لارڈ تھے۔ کمال کے مقرر اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ برکلے اور آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے تھے۔ لنکنز ان کے تر بیت یافتہ بیرسٹر تھے۔لیکن بدقسمتی سے سیاست میں آگئے۔ بس پھر کیا تھا ایک دن تختہ دار پر چڑھ گئے ۔ کسی نے جوڈیشل قتل کہا کسی نے انتقام کہا۔ جو بھی ہوا ،نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو ہم میں نہیں رہے۔ بے نظیربھٹو شہید باپ کے نقش قدم پر سیاست میں آگئیں۔ اگر نہ آتیں تو آج بھی بڑی پر سکون زندگی گزار رہی ہوتیں۔ پوتے پوتیوں ، نواسے، نواسیوں کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہوتیں۔ لیکن سیاست میں آنے کی وجہ سے کبھی کردارپر الزام لگا ، کبھی کرپشن کی فائلیں کھل گئیں، کبھی ملک بدر رہنا پرا کبھی قید کاٹنی پڑی تاوقتیکہ کہ ایک سانحے میں جان سے گزر گئیں۔ سیاست میں نہ ہوتیں تو آج زندہ ہوتیں۔ کسی نے سوال نہیں کرنا تھا سرے محل کا، ہیروں کے ہار ، الزامات کے انبار کا۔
نتیجہ بحث کا یہ نکلتا ہے کہ سیاست ایسا کاروبار ہے کہ اس میں ٹاپ پر پہنچنا کوئی منافع بخش کام نہیں ۔آل اولاد، خاندان کی عزت، گھرانوں کا بھرم ، ذاتی کاروبار اور ذاتی زندگی سب کچھ داو پر لگ جاتی ہے۔ کا م کوئی ایسا کرنا چاہیے کہ آپ دس سال ملک کے آئین کو پامال کریں ، قانون کی دھجیاں بکھیر دیں اور کوئی آپ کو سزا نہ دے سکے۔ ایک دن بھی قید نہ کر سکے۔ آپ دوبئی میں کھلے عام رنگ رلیاں منائیں اور اگر کوئی آپ کے اثاثوں کی طرف میلی آنکھ اٹھائے تو آپ دھمکی دے دیں کہ کسی کی جرات نہیں کہ میرے اثاثوں کی طرف دیکھے بھی۔ یا پھر کام ایسا ہونا چاہیے کہ آپ تین سال اپنے حق میں ہر خاص و عام سے شکریئے کے نعرے لگوائیں، کبھی ایکسٹنشن کی فرمائش کریں کبھی فیلڈمارشل کی پوسٹ کا تقاضا کر یں۔ کبھی ایمپائر کی انگلی بن جائیں، کبھی سیاستدانوں کو ذلیل کروائیں اور ان عظیم قومی خدمات کے خراج میں اس غریب مملکت سے آٹھ سو چھیاسی کنال رقبہ انعام میں پائیں اور پھر بھی آپ تاعمر ہیرو کہلائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.