فرض کریں

بدھ 12 جولائی 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

فرض کریں۔ میرے اصرار پر آج فرض کریں ۔ اسے میری طفلانہ خواہش ہی کہیں، لیکن ایک لمحے کو فرض کریں کہ دنیا میں کہیں پاناما جیسا کوئی کیس نہ ہوا ہوتا۔فرض کریں کہ آف شورکمپنیاں بنانے کیلیے قانونی مدد فراہم کے حوالے سے دنیا کے سب سے بڑی لا فرمز میں سے ایک موزیک فا نینسکا کا دنیا میں کوئی وجود ہی نہ ہوتا۔جرمن اخبار سود ڈوئش سائٹنگ کو ایک کڑوڑ پندرہ خفیہ لاکھ دستاویزات نہ ملی ہوتیں۔

آئی سی آئی جے کے نام سے چھہتر انٹرنیشنل میڈیا آگنائزیشنز کے ایک سو نو بین الاقوامی صحافیوں کا کوئی کنسورشیم ہی نہ بنا ہوتا۔ فرض کریں کہ پاکستان کے نامور صحافی عمر چیمہ اس کنسورشیم کا حصہ ہی نہ ہوتے۔ فرض کریں کے آف شور کپمنیوں کا قضیہ ہی کھڑا نہیں ہوتا۔ فرض کریں ٹیکس کے چوری کا کوئی جھگڑا ہی نہ ہوتا۔

(جاری ہے)

کوئی فلیٹ ، کوئی حدیبیہ پیپر مل، کوئی رمضان شوگر مل کا کو ئی وجود ہوتا،نہ کوئی سپریم کورٹ کا پاناما پر بینچ بیٹھتا نہ کوئی جے آئی ٹی بنتی۔

نہ کوئی پیشیاں ہوتیں نہ کوئی گواہ تلاش کیئے جاتے۔ نہ کوئی وٹس ایپ پر فون کرتا نہ کوئی تصویر لیک ہوتی۔ نہ انگریزی روزنامہ دی نیوز کے انوسٹی گیشن سیل نے دستاویزی شواہد کی بنیاد پر یہ خبریں دی ہوتیں کہ جے آئی ٹی اپنے بننے سے پہلے ہی ہائی جیک ہو گئی تھی، نہ یہ خبر آتی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹس کوئی اورلکھ رہا ہے اور نہ اس خوفناک حقیقت کا انکشاف ہوتاکہ جے آئی ٹی کے زیادہ تر امور چلانے اور سنبھالنے کا اختیار خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو سپریم کورٹ نے خود دیا۔

نہ جے آئی ٹی میں من پسند افراد کی بھرتی ہوتی نہ قطری خط کا کوئی چکر ہوتا ۔نہ شہزادے کے بیان کی جگہ پر جھگڑا ہوتا نہ منی ٹریل کا کوئی قصہ ہوتا۔ اور نواز شریف کی جمہوری حکومت کو چار سال گزر گئے ہوتے ۔تو کیا اس وقت اگلے جمہوری الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہوتیں؟ ووٹرز لسٹیں بن رہی ہوتیں؟ انتخابی امیدواروں کی فہرستیں فائنل ہو رہی ہوتیں؟ جماعتوں کے اندر منشور پر اگلے پانچ سال کے منشور اور لائحہ عمل پر بحث ہو رہی ہوتی؟سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہوتیں؟
میرا گمان، مجھے کچھ اور اندیشے سجھا رہا ہے۔

اگر پاناما نہ ہوتا تو کچھ اور ہونا تھا۔ کچھ نہ ہوتا تو کچھ تخلیق کیا جانا تھا۔ کوئی توہین عدالت کا کیس اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا گیا ہوتایا شائد مذہبی جماعتوں کا لانگ مارچ ہو رہا ہوتا، نواز شریف پر کوئی غداری کا الزام لگ چکا ہوتا یا پھر کہیں سے کفر کا فتوی برآمد ہو چکا ہوتا، کسی سے فون پر اداروں کے حوالے سے شگفتہ جملہ زیر بحث ہو رہا ہوتا۔

کوئی ذاتی زندگی کی وڈیو سامنے آ گئی ہوتی جس پر ملک بھر میں ہنگامہ اٹھا دیا گیا ہوتا۔ اور کچھ نہیں توبھارت کے ساتھ خفیہ تعلقات کے کوئی دستاویزات سامنے آ گئی ہوتیں۔امریکہ کے ساتھ سودے بازی کا نعرہ لگ چکا ہوتا یا پھر دہشت گردوں کی مدد کا نعرہ لگ چکا ہوتا۔ہسپتالوں کی حالت زار پر احتجاج شروع ہو چکا ہوتا یا پھر ینگ ڈاکٹرز کے احتجاج میں کئی لوگوں کو گولی لگ چکی ہوتی۔

ٹرک ڈرآئیوروں کی ہڑتال کروا دی جا چکی ہوتی یا” کسانوں“ کو سڑکوں پر لا کر تباہی مچانے کی کوشش شروع کی جا چکی ہوتی یا پھر سٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ میں ذاتی فائدوں کا الزام لگ چکا ہوتا۔کسی پولیس مقابلے میں مخالف کو مارنے کے حکم کی فون ریکارڈنگ سامنے آ چکی ہوتی، کسی وزیر کی رشوت لیتے ہوئی تصویر سامنے آ چکی ہوتی۔ یہ سب نہ ہوتا تو پارٹی میں فارورڈ بلاک سامنے آ گیا ہوتایا پھر چند وزراء کا استعفی دینے کی افواہ گرم ہوتی۔

خاندان کا کوئی جھگڑا اس وقت قوم کے سامنے زیر بحث ہوتا یا پھر اولاد کی جانب سے بغاوت کے کسی بیان پر اس وقت ساری قوم بحث کر رہی ہوتی۔ میڈیا مذکورہ بالا امکانی جرائم کے پیش نظر حکومت کے جانے کی تاریخ دے رہا ہوتا۔کرپٹ اور مجرم حکمرانوں سے چھٹکارا پانے کی دعا مانگ رہا ہوتا۔ سوشل میڈیا اس موقعے پر آگ پر تیل چھڑک رہا ہوتا، حکومت مخالف اینکرز اپنے دل کی جی بھر کر بھڑاس نکال رہے ہوتے۔

ہر روز حکومت کے جانے کا اعلان کیا جا رہا ہوتا۔اگلے انتخابات کے سوال پر لوگ ٹھٹھے لگا رہے ہوتے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ہماری ریت روایت ہے کہ ہم جمہوری حکومتوں کو خود منتخب کرتے ہیں اور نامعلوم خبروں پر ان کو رسوا بھی کرتے ہیں۔کون لوگ یہ کرتے ہیں ؟ اسکی منصوبہ بندی کہاں ہوتی ہے؟ کس کے ایماء پر سیاست دانوں کو بدنام کیا جاتا ہے یہ بات پھر سہی۔

لیکن ہم نے دیکھا کہ بھٹو پر ایک قتل کا مقدمہ کیا گیا اور اسکی وجہ سے ملک کے مقبول جمہوری لیڈر کو پھانسی لگا دی گئی۔بعد میں اسے ججز اور عدلیہ نے عدالتی قتل بھی قرار دیا۔ اپنے فیصلے پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔اپنے کیئے پر پچھتاوے کا اظہار بھی کیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اسی طرح بے نظیر اور نواز شریف حکومت کو دو ، دو دفعہ حکومتوں سے برخواست کیا گیا۔

کبھی کرپشن کا الزام لگا ، کبھی پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں نوجوانوں کے ہوا میں ہاتھ لہرانے کو لانگ مارچ کی وجہ بنائی گئی۔کبھی غداری کا الزام لگا کبھی بھارت سے تعلقات وجہ بنا دی گئی۔ آپ غور کریں تو ان میں سے ایک بھی الزام آج تک ثابت نہیں ہوا۔ ایک بھی مقدمے میں مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ ایک بھی جرم کا ثبوت نہیں ملا۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔

انکو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا گیا۔اس سے پہلے ایک ایسی کمپیئن چلی کہ سب کو یقین دلا دیا گیا کہ یہ مجرم ہیں، غدار ہیں کرپٹ ہیں۔ اس طرح کی مہم ہر جمہوری دور میں چلتی ہے۔ مقصد صرف جمہوریت کو لاٹھی کے زور پر ہانکنے کا ہوتا ہے۔عوام اور عوامی رائے اس سارے قصے میں کوئی اہم نہیں ہوتی۔ یہ طاقت کی جنگ ہوتی ہے جس میں شکست ہمیشہ سیاستدانوں کا ہی مقدر بنتی ہے۔

بہت سے قارئین ابھی تک سمجھ رہے ہوں گے کہ اس طویل تمہید کے ذریعے میں پاناما سکینڈل یا شریف فیملی کا دفاع کر نا مقصود ہے۔ اسی الزام سے بچنے کے لئے بات کو ایک اور طرح بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
فرض کریں اس وقت عمران خان کی جمہوری حکومت ہوتی ۔ انتخابات میں پی ٹی آئی نے زبردست فتح حاصل کی ہوتی۔

عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے۔ ملک جیسا بھی چل رہا ہوتا پی ٹی آئی کی حکومت ہر طرف ہوتی۔ لوگ کہہ رہے ہوتے ہمیں ہمارا نجات دہندہ مل گیا ہے۔ جس شاہکار کے انتظار میں ستر دہائیوں سے تھا وہ دریافت ہو چکا ہوتا۔ ہر طرف بلے کا نشان راج کر رہا ہوتا تو اس وقت کیا ہو رہا ہوتا۔ کیا انکی حکومت آرام سے چل رہی ہوتی؟ کیا جمہوریت اس ملک میں پنپ رہی ہوتی؟ کیا جمہور کو حق مل رہا ہوتا؟ نہیں بلکہ اسکے بجائے سکینڈلز کی بھرمار ہوتی۔

ذاتی زندگی کی وڈیوز سامنے آ گئی ہوتیں۔ وزراء پر کرپشن کے الزام لگ چکے ہوتے۔ حماقتوں پر لطیفے بن چکے ہوتے۔ نااہلی کی داستانیں زباں زد عام ہوتیں۔ کوئی اور نہیں توہین عدالت کا کیس بن چکا ہوتا۔ اداروں کی مدد یا مخالفت میں سے کوئی بھی حکم چیلنج ہو گیا ہوتا۔اداروں کی رسوائی کا الزام لگ چکا ہوتا۔ عمران خان سے نجات کی تحریک شروع ہو چکی ہوتی۔

لانگ مارچ کی منصوبہ بندی ہو چکی ہوتی۔مذہبی جماعتیں اس جہاد میں صف آرا ہو چکی ہوتیں۔وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کی فائلیں بن چکی ہوتیں۔ کوئی مزید آف شور کمپنی سامنے آ گئی ہوتی۔ بہنوں کے اثاثوں پر سوال اٹھ چکے ہوتے ۔ کوئی خفیہ شادی منظر عام پر آ چکی ہوتی۔ یہ سب کچھ اس برق رفتاری سے ہوتا کہ عمران خان کی حکومت ایک ، ڈیڑھ سال میں ڈھیر ہو چکی ہوتی۔

نئے پاکستان کا خواب چکنا چور ہو چکا ہوتا۔
ہمارے ہاں ہر جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے غیر جمہوری اقدامات سامنے آتے ہیں۔ سیاستدانوں کی بدنامی سرعام اتنی ہوتی ہے کہ وہ جان بچانے پر ہی خوشیاں مناتے ہیں۔یہ ماحول اس ملک میں کون بناتا ہے ، کہاں سے یہ غیب کے مضامین سامنے آتے ہیں۔ ان جمہوریت کش مہمات کی منصوبہ بندی کہاں ہوتی اس پر بحث نہیں کرنی لیکن یہ سو فیصد درست ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہاں باقی تو اس کالم میں سب باتیں فرضی ہیں بس ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نواز شریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اس غیر جمہوری ماحول میں چار سال نکال گئے ورنہ عمران خان تو ایسی جمہویت کش مہمات کو ایک ، ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ سہار سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :