
جمہوری ڈاکٹرائن ۔ قومی چیلنجز کا حل کیسے ؟
پیر 26 مارچ 2018

عمار مسعود
گزشتہ ستر سال نے اس ملک میں بہت سے ابہام تخلیق کر دیئے ہیں۔ حق حاکمیت کس کا ہے؟ بالا دستی کس کو حاصل ہے؟دست نگر کس کو رہنا ہے؟ قانون کون سا لاگو ہونا ہے؟ آئین کی تقدیس کس چڑیا کو کہتے ہیں؟ پارلیمان کا مقام کیا ہے؟ طرز حکومت کونسا بہتر ہے؟ صدارتی نظام ، غیر جماعتی انتخابات ، ٹیکنو کریٹس ، آمریت یا سیاسی حکومتوں میں سے کس کا مقام ارفع ہے؟ 1973 کے آئین کی کیا اہمیت ہے؟ کون کس کو جوابدہ ہے؟ ان بنیادی معاملات پر اس ملک میں بہت ابہام پایا جاتا ہے ۔
(جاری ہے)
بین الاقوامی وژن
اس ملک کا بین لاقوامی وژن دو تاریک فیصلوں میں پوشیدہ ہے۔بد قسمتی سے دونوں فیصلے آمریت کے دور میں کیئے گئے او ر ان مہیب فیصلوں میں نہ عوامی نمائندوں کی رائے شامل رہی نہ عوام کی منشاء حاصل کی گئی۔جنرل ضیاء الحق نے ہمیں روس سے جہاد کا سبق دیا۔ ہم نے امریکی امداد سے یہ ایمانی فریضہ پوری شدومد سے ادا کیا ۔ اسی مقصد کے لئے ملک میں جہادی مدارس قائم کیئے گئے اور روس کو نہ جانے کن گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکا گیا۔ اس ایک جنگ میں شرکت سے ہم نے روس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سماج ، ثقافت اور سیاست کو بھی شکست دی۔ 1977 سے پہلے کا پاکستان سماجی ، سیاسی اور ثقافتی طور پر ایک مختلف پاکستان تھا۔ہیروئن ، کلاشنکوف ، مذہبی پر تشد د تنظیمیں اور لسانی جماعتیں اسی دور کی پیداوار ہیں۔ چالیس سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک ہم اس ایک فیصلے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔نائن الیون کے بعد کی جانے والی ایک فون کال نے اس ملک کی خارجہ پالیسی کو دوسرا یو ٹرن لینے پر مجبور کیا ۔ اس دفعہ بھی اس فیصلے کی سعادت ایک ڈکٹیٹر کو نصیب ہوئی۔وطن بدری کی بناء پر عوامی نمائندگان اس فیصلے میں شریک نہیں ہوئے۔ اس نئے یو ٹرن نے صورت حال کو دگرگوں کر دیا۔ ہم اپنی لگائی ہوئی پنیری اپنے پاوں تلے روندنے لگے۔ جن مدارس میں افغان جہاد کی تربیت دی جاتی تھی انہی کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ ان آپریشنز میں وقتی کامیابی تو نصیب ہوئی مگر اس طرح کی سماجی تبدیلی فوجی آپریشنز سے وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ اس کے لئے عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنا پڑتا ہے۔ جس کی دور آمریت میں کبھی کوئی روایت نہیں رہی۔
انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی
کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ اس مسئلے کو تسلیم کیا جائے۔انسداد دہشت گردی کے معاملے پر ہم بنیادی باتوں کو تسلیم کرنے میں ابہام کا شکار ہیں۔ خارجہ پالیسی کے دو عبرتناک فیصلوں کاخمیازہ ہم بھگتتے رہے مگر اس بات کو تسلیم کرے سے قاصر رہے کہ خامیاں اب ہمارے اپنے گھر میں بھی ہیں۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کو الزام دینے سے پہلے ہمیں تسلیم کرنا ہے کہ ہمیں اپنا گھر بھی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔یاد رہے ،ہم ہی وہ لوگ ہیں جو افغانستان کو اپنا پانچوں صوبہ بنانے کے خواہاں تھے۔ ہم ہی نے اچھے اور برے طالبان کا نظریہ تخلیق کیا تھا۔ ہم ہی نے اپنے فیصلوں سے فرقہ پرستی کو ہوا دی تھی۔ ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ بھی ہمارے مقدر میں دہائیوں سے رہی ہے۔ اپنی موجودہ صورت حال کا مورد الزام دنیا کو ٹھہرانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنی خامیوں کو تسلیم کریں ۔ سماج میں تبدیلی اگر درکار ہے تو اس کے لئے بندوق کا سہارا کافی نہیں ہے۔ قلم کی اہمیت کو تسلیم کریں ۔ فنون کو فروغ دیں ۔ معاشرے کو گھٹن سے آزاد کریں۔ بات کہنے کی آذادی اگر نصیب ہوگی تو مکالمہ آگے بڑھے گا۔
کمانڈ کی اصل جڑیں
کمانڈکی اصل جڑیں پارلیمان کی بالا دستی تسلیم کر لینے میں ہے۔ براہ راست اور بلاواسطہ جمہوریت کی جڑیں کاٹنے سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ اگر ہم پورے صدق دل سے تسلیم کریں کہ آئین پاکستان کے مطابق حاکمیت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔ پارلیمان سے بالادست کوئی قوت نہیں ہے۔ جمہوریت اصل رستہ ہے۔ شب خون مارنے والے مجرم ہیں۔ آئین کو توڑنے والے غدار ہیں تو کمانڈ اسکے اصل وارث تک پہنچے گی۔ اسی طرز جمہوریت سے کمانڈ کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی اور ملک کی ترقی بھی ہوگی۔
سیاسی نظریہ کیا ہے؟
آئین پاکستان کے تحت اس ملک کا سیاسی نظریہ جمہوریت ہے اور جمہوریت کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ اسکی سرایت پذیری کی رفتار گرچہ سست ہوتی ہے مگر اسکی اثر پذیری دیر تک رہتی ہے۔ ایک بری جمہوری حکومت کا حل مارشل لاء نہیں بلکہ ایک اور جمہوری حکومت ہے۔سادہ سی مثال ہے زرداری دور حکومت میں حالات بہت بدتر تھے اب حالات پہلے سے بہتر ہیں اور اگر جمہوریت کا تسلسل قائم رہتا ہے تو اگلی حکومت کواس سے بہتر ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دیگر ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں۔ جمہوریت کے قتل کے لئے عدلیہ کا سہارا طرز جمہوریت نہیں ہے۔ ووٹ کی تقدیس کو مان لینا ہی درست سیاسی نظریہ ہے۔
مالیاتی معاملات میں بہتری کیسے ؟
معشیت کی بہتری سیاسی استحکام میں پوشیدہ ہے ۔ اگر ملک کے وزیر اعظم کو ایک ایسے کیس میں نااہل کر دیا جائے کہ جس کی وجہ سے دنیا پھر میں جگ ہنسائی ہو تو معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ پالیسیوں کا تسلسل ہی بہتر معیشت کی ضمانت دے سکتا ہے۔اگر ہر دس سال کے بعد ہمیں مارشل لاء کی عفریت گھیر لے گی تو ملک اسی طرح دہائیوں تک ترقی معکوس کرتا رہے گا۔ آگے بڑھنے کے لئے عوامی نمائندوں کے فیصلوں کا احترام ضروری ہے۔ کرپشن کے بے بنیاد الزامات شخصیات، نظریات اور معاشیات کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔
تاریخی جھلک
ستر سال ہو گئے اس ملک کو معرض وجود میں آئے ہوئے۔ ان برسوں کی تاریخ اسی بات کا سبق دیتی ہے کہ ہم نے اپنے فیصلوں میں عوامی رائے عامہ کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ کسی بھی صوبے کے لوگ ہوں جب وہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوں گے اور آئین کو پامال کرنے والے من مانے فیصلے ان پر مسلط کریں تو تاریخ کے سب صفحات ہمیں سیاہ ہی نظر آئیں گے۔
کما ن کا تسلسل اور تقابل
جمہوریت کے ثمرات اس کے تسلسل میں پوشیدہ ہیں ۔ عوامی حکومتوں کو تسلیم کریں گے تو حالات بہتر ہوں گے۔ آمریتوں میں کیئے گئے فیصلوں کا تقابل جمہوری ادوار کے فیصلوں سے کیا جائے تو عوامی نمائندوں کی رائے صائب قرار پائے گی۔ اس ملک کی بقاء جمہوریت کے تسلسل میں ہے ۔
اصل امتحان
موجودہ صورت حال میں اصل امتحان 2018 کے شفاف اور منصفانہ الیکشن ہیں۔اگر اس میں بھی NA 120 کے ضمنی الیکشن کی طرح مداخلت کی گئی تو تاریکی مقدر بنے گی۔ اگر سینٹ کے الیکشن کی طرح اداروں کی پشت پناہی پر الیکشن کے مینڈیٹ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو نتائج بھیانک ہوں گے۔ جمہوری ڈاکٹرائن ہی مسائل کا حل ہے۔ اس کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اس کی روگردانی تنزلی کا سفر ہے جو ماضی میں اکثر ہمارا خاصہ رہا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.