
میں لفافہ صحافی کیسے بنا
پیر 12 نومبر 2018

عمار مسعود
(جاری ہے)
اس کام میں بہت برکت ہے''۔
ابتداء میں طبیعت اس طرف نہیں آئی۔ سیاست کی کوئی خاص سوجھ بوجھ بھی نہیں تھی پھر بھی لکھتا رہا۔سیاسی کالم نگاری سے پہلا فرق تو یہ پڑا کبھی کبھار کسی وزیر باتدبیر یا سینیٹر کا فون آ جاتا تھا۔ جو کالم کی تعریف اس توقع سے کرتے تھے کہ اگلے کالم میں کہیں ان کا بھی ذکر اذکار ہو جائے۔ معاملات زندگی اسی طرح چلتے رہے کہ اچانک پانامہ کا قضیہ میڈیا میں اٹھا۔ اچانک کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کی باتیں اہم ہو گئیں۔ بعض اوقات تو یوں لگتا تھا جیسے ملک کے تمام لوگ انہی تجزیہ کاروں کے تجزیوں کے منتظر ہیں۔ ان کے ایک ایک لفظ سے ملک کی تاریخ بدل سکتی ہے۔ حکومتیں گر سکتی ہیں۔ ایوان لرز سکتے ہیں۔انہی دنوں میں سے ایک مبارک دن دروازے پر گھنٹی بجی۔ میں ہاتھ میں دودھ کی دیگچی لیئے دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازے پر ایک سات فٹ کا لمبا تڑنگا سیاہ فام جوان کھڑا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے بڑے ادب سے سلام کیا اور میرے کان میں کہا۔ '' میاں صاحب آ رہے ہیں'' ہمارے محلے میں ایک میاں صاحب رہتے ہیں جنکی نظر ہمیشہ محلہ کمیٹیوں اور بہو بیٹیوں پر رہتی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ کہ میری کسی خطا کی سرزنش کے لیئے محلے والے میاں صاحب آ رہے ہیں۔ ایسے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ''وڈے میاں صاحب'' بڑی سی سنہری گاڑی میں تشریف لا رہے ہیں۔ میرے تو ہاتھ پاوں پھول گئے۔ کیسے خاطر مدارت کروں گا۔ دودھ والا ابھی تک آیا نہیں تھا چائے کیسے بنے گی؟ میاں صاحب نے اس صورت حال کو بھا نپ لیا۔ نہائت شفقت سے بولے ''چائے میں پی کر آیا ہوں''۔ کہنے لگے'' آپ کے کالم ملک کی سیاست کا رخ بدل دیتے ہیں۔ یہ پانامہ کے کیس پر پی ٹی آئی کے لونڈوں نے بہت شور مچایا ہوا ہے۔ ذرا اپنے کالم میں دھیان رکھیئے گا''۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سات فٹ لمبے نوجوان کو اشارہ کیا جس نے ایک چرمی بریف کیس میرے سامنے رکھ دیا۔ میاں صاحب نہائت شفقت سے کہنے لگے بریف کیس میں بھابھی اور بچوں کے لیئے کچھ تحائف ہیں۔ قبول کریں۔ میاں صاحب نے پیار سے گلے لگایا اور یہ جا اور وہ جا۔ میں سکتے کی حالت میں بریف کیس کو دیکھتا رہا۔ بہت ہمت کر کے بریف کیس کو کھولا تو امریکی ڈالروں سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ حیرت گم ہو گئی۔ سمجھ نہ آئے کہ اتنے پیسے کہاں رکھوں۔ بینک میں جمع کروانے کا حوصلہ نہ ہوا۔ زندگی میں پہلی بارٹیکس والوں سے خوف آنے لگا۔ بہت سوچ کر ایک چادر میں بریف کیس کو لپیٹ کر صوفے کے نیچے رکھ دیا۔ ساری رات نیند نیں آئی۔ صبح کا مبارک وقت تھا کہ کاغذ قلم سنبھالا۔ میاں صاحب کی شان اقدس میں ایک کالم لکھا۔ جس میں پانامہ کا کیس اٹھانے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ میاں صاحب کے شان میں وہ قلابے ملائے کہ زمین آسمان ایک ہو گئے۔ میاں صاحب کی خوشنودی کی خاطر کالم میں بار بار احتساب کو ایک عالمگیر سازش قرار دیا۔ جس دن کالم چھپا۔ علی الصبح دروازے کی گھنٹی بجی۔ اس دفعہ میں ذہنی طور پر تیار تھا اس لیئے ہاتھ میں دودھ کی دیگچی نہیں پکڑی۔ وہی لمبا تڑنگا نوجوان دروازے پر حاضر تھا۔ اسکے ہاتھ میں ایک اور بریف کیس تھا۔ میرے کان کے پاس آکر کہنے لگا '' میاں صاحب نے بھیجا ہے۔ اور وہ کالم سے بہت خوش ہو ئے ہیں۔ انہوں نے کچھ اور کلائنٹس بھی آپکی طرف بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ بس آپ اپنا مشن جاری رکھیں''۔ بس پھر کیا تھا روز کالم لکھنا شروع کر دیا۔ روز روز بریف کیس آنے لگَے۔ گھر بار کے حالات بدل گئے۔ مجھ ناچیز کوخدا نے چھپر پھاڑ کر دیا۔
یہ سب باتیں تو راز کی ہیں لیکن آج قارئین سے کچھ نہیں چھپاوں گا۔ ایک دن ''ڈار صاحب'' آئے۔ بہت گھبرائے ہو ئے تھے۔ کہنے لگے یہ میری گلبرگ کی کوٹھیوں اور دبئی میں جائداد کا بہت شور مچا ہے آپ سے مدد کی درخواست ہے۔ میں ابتک اپنے کام میں طاق ہو چکا تھا۔ میں کہا ''ڈار صاحب'' تسلی سیتشریف رکھیں۔ کچھ سوچتے ہیں۔ اس اثنا میں،میں نے کنکھیوں سے دیکھ لیا تھا کہ ڈار صاحب کے ملازم کے دونوں ہاتھوں میں برف کیس تھے۔ بس پھر کیا تھا ایسا کالم لکھا ڈار صاحب سب مشکلات سے آذاد ہو گئے۔ بیرون ملک جانے کا مشورہ بھی میں نے ہی اپنے کالموں میں دیا تھا۔ فرضی بیماری کا بہانہ بنا کرانگلینڈ کے ہسپتال میں داخل بھی خاکسار کے مشورے پر ہوئے تھے۔'' ڈار صاحب'' جہاں بھی گئے وفا نبھاتے رہے۔ بریف کیس آتے رہے۔ ایک دن ''چھوٹے میاں صاحب'' بھی آ ہی گئے کہنے لگے یہ حدیبیہ کا قصہ تو ختم کروا دیں۔ میں کہا سوچتے ہیں۔ ''چھوٹے میاں صاحب'' جہاں دیدہ آدمی ہیں بات سمجھ گئے۔ ملازم کا آواز دی اس نے ڈالروں کی گڈی میرے سامنے رکھ دی۔ مجھے بریف کیس کی عادت تھی اس لیئے میں نے''چھوٹے میاں صاحب '' کی سونے کی گھڑی کی اتنی تعریف کی کہ ان سے وہ گھڑی اتارتے ہی بنی۔
بس پھر کیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے وزیر بھی آنے لگے۔ ایک دن چھوٹے چوہدری صاحب آئے۔ بے چارے توہین عدالت میں دھر لیئے گئے تھے۔نئی لینڈ کروزر لشکارے مار رہی تھی۔ میں کہا کام تو ہو جائے گا لیکن۔۔۔۔ خیر بیچارے لینڈ کروز چھوڑ کر '' کریم ٹیکسی'' پر گھر سے روانہ ہوئے۔ نوجوان کالم نگارو۔ یاد رکھو چھوٹے وزیروں کے لفافے بڑے وزیروں سے زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ کوئی دو کنال کا پلاٹ پیش کرتا کوئی بھابھی کے لیئے ہیروں کا ہار۔ کوئی انٹرنیشل ٹور کا خرچہ اٹھاتا ہے۔ کوئی دوبئی میں بنگلہ دلواتا ہے۔ قلم کی طاقت اتنی بڑھی کے دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی رابطے شروع کر دیئے۔ ان سے معاملات طے ہونے میں کچھ دشواری ضرور ہوئی لیکن لگن سے کام کیا جائے تو سب ممکن ہے۔ اب تو کئی سیاسی جماعتیں اپنی باری کی منتظر رہتی ہیں۔ دل ہی دل میں دعا کرتی ہیں کہ کب خاکسار کی نظر ان پر پڑ جائے اور سب دلدر دور ہو جائیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت آج کل میڈیا کے عتاب میں ہے۔ جس کو دیکھو منہ اٹھا کر ان پر تنقید کر دیتا ہے۔ ایسے میں انہیں کچھ تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے۔ ان کے لیئے خاکسار کا بس یہی پیغام ہے کہ ہماے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔
قارئین۔ چند برسوں میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ قلم میں کتنی طاقت ہے۔ لفظ کے ہنر کیا کیا ہیں۔ اب آپ ہی دیکھیں میری کیا سے کیا حالت ہو گئی۔ کہاں وہ مفلوک الحال افسانہ نگار اور کہاں خاکسار۔ اب الحمد للہ معاملات ایسے سدھر گئے ہیں کہ اب میرے پاس بحریہ ٹاون سے زیادہ پلاٹ اور ڈی ایچ سے زیادہ زمین ہے۔ میں اپنے تمام لکھاری دوستوں سے یہی کہوں گا کہکالم نگاری کی طرف آئیں کیونکہ اس کام میں بڑی برکت ہے۔
نوٹ۔ یہ خیالاتی کالم ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے جو ہر مختلف سوچ والے صحافی کو لفافہ سمجھتے ہوئے نت نئے خواب دیکھتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.