نفسیاتی الجھنیں اور ہمارا معاشرہ

منگل 4 جنوری 2022

Aqsa Younas

اقصی یونس

جب سے زندگی وجود میں آئی تب سے ہی جسمانی بیماریاں بھی زندگی کا حصہ ہیں ۔ جیسے کوئی گاڑی یا کوئی بھی مشین ہو ۔ تو اس میں بھی کوئی نہ کوئی خرابی پیدا ہوتی رہتی ہے ۔اسی طرح انسان بھی کبھی جسمانی کبھی روحانی اور کبھی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔ مگر افسوس کا مقام ہے ہم جسمانی بیماریوں کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر نفسیاتی الجھنوں کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔


نفسیاتی الجھنوں پہ اکثر لکھاری قلم آزمائی کرتے رہتے ہیں مگر میرے نزدیک اس پہ جتنا بھی لکھا جائے کم ہے ۔ نفسیاتی بیماریاں ایسی بیماریاں ہیں جن کے بارے میں معاشرے میں ابھی اتنی آگاہی ہی نہیں ۔ اس لئے خود مریض کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس نفسیاتی مرض کا شکار ہے ۔ اپنے اردگر نظر دوڑانے سے آپکو معلوم ہوگا کہ بہت سے لوگ ان نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں ۔

(جاری ہے)

اور اس مرض کے زیر اثر وہ لوگ ایڑیا رگڑ رگڑ کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ۔
نفسیاتی الجھنوں نے پورے معاشرے کو ایسے ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جیسے کرونا وائرس جیسے مہلک وبا نے پورے معاشرے کو مفلوج کر کے رکھ دیا ۔ نفسیاتی بیماری کا مطلب پرگز یہ نہیں کہ آپ پاگل ہیں ۔ جسمانی بیماریوں کی طرح نفسیاتی بیماری بھی ایک مرض ہے ۔ جیسے ہم اپنی جسمانی بیماری کیلئے ڈاکٹر کے پاس جا کر مکمل علاج کر واتے ہیں ۔

ویسے ہی نفسیاتی الجھنوں کا بھی علاج ممکن ہے ۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس پہ بات کرنا بھی ایسا ہے جیسے کوئی اچھوت بیماری جو نام لینے سے بھی نقصان پہنچائے گی ۔
نفسیاتی مسائل میں ایک مرض شیزو فرینیا ہے ۔ یہ ایک خطرناک ذہنی مسئلہ ہے ۔ جس میں مریض کو لگتا ہے کہ ہر بات کے دو مطلب ہیں اور وہ مریض ہمیشہ بات کے منفی پہلو پہ نظر رکھتا ہے ۔ اور اسے لگتا ہے کہ ہر بات میں طنز چھپا ہے ۔

اس مرض نے بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ اس مرض کی زد میں آنے والوں میں ہر طبقے اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ شامل ہیں ۔ جنہیں ہر وقت یہ خوف ہوتا ہے کہ ان کا مالی نقصان ہوجائے گا اور یا پھر اس کے ادرگرد کے لوگ اسے مارنا چاہتے ہیں اور اسکے خلاف سازشوں میں شریک ہیں ۔
ایک ذہنی بیماری اور بھی ہے جسے نفسیات کی زبان میں ’’بائی پولر‘‘ کہا جاتا ہے عام بان میں اسے خود پرستی بھی کہا جا سکتا ہے ۔

اس کی زد میں آنے والے شخص کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ مافوق الفطرت قوتوں کا مالک ہے اس جیسا اور کوئی نہیں، وہی خود پرستی ۔ چنانچہ وہ مختلف دعوے کرتا نظر آتا ہے۔ ذہنی امراض کے ایک اسپتال میں ایک مریض نے دوسرے مریضوں کو اونچی  بلند مخاطب کر کے کہا ’’آپ سب کو اطلاع دی جاتی ہے کہ مجھے اوتار بنا کر آپ کی طرف بھیجا گیا ہے‘‘ اس پر بائی پولر کا دوسرا مریض اپنی جگہ سے اٹھا اور اتنی ہی بلند آواز میں کہا ’’لوگو، اس کی باتوں میں نہ آنا، یہ جھوٹا ہے کیونکہ میں نے اسے اوتار بنا کر نہیں بھیجا‘‘۔

یہ محض لطیفہ نہیں ہے اگر آپ کسی بھی منٹل ہاسپٹل کا ایک چکر لگائیں گے تو آپکو معلوم ہوگا کہ یہ تو حقیقت پہ مبنی بات ہے ۔
یہ بیماری فقط آپ ذہنی امراض کے ہسپتال میں نہیں دیکھیں گے بلکہ ایسے مریض آپکو جگہ جگہ نظر آئیں گے جو خود پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ جیسے کوئی شاعر اسے ایسا لگتا ہے جیسے اس جیسا کوئی اور شاعر تو دنیا میں موجود ہی نہیں ۔

کوئی منصف ہے تو وہ یہ سوچے بیٹھا ہوتا ہے کہ اس جیسا تو کوئی اور لکھ ہی نہیں سکتا ۔ یہی حال ہمارے سیاست دانوں کا ہے انہیں لگتا ہے ان جیسا صادق اور امین کوئی نہیں اور دوسروں پہ کیچڑ اچھانے میں وہ کوئی کمی نہیں چھوڑتے ۔
نفسیاتی اور  ذہنی بیماریاں ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ ان بیماریوں میں صرف شیزو فرینیا یا بائی پولر ہی شامل نہیں بلکہ اس کی بیسیوں اقسام ہیں جن میں سے کچھ تو موروثی  ہیں یعنی والدین سے اولاد میں منتقل ہوتی ہیں ۔

اور کچھ حالات کے تحت جنم لیتی ہیں۔ انسان کی عمر کا خطرناک دور اس کی زندگی کے ابتدائی دن ہوتے ہیں، ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کی شخصیت سات سال کی عمر میں مکمل ہو جاتی ہے اور کچھ تحقیق کے مطابق انسان کی شخصیت دو سال میں مکمل ہو جاتی ہے ۔ اور اس پر مثبت یا منفی اثرات کے متعدد محرکات ہیں جن میں گھریلو ماحول، والدین کا برتاو ، دوست اور معاشرے کا مجموعی ماحول شامل ہیں۔


جیسے باقی جسمانی صحت کے مسائل اہم ہیں ویسے ہی ذہنی مسائل بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ اب ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے وہاں یہ مسائل وبا کی طرح پھیل چکے ۔ ہر دوسرا شخص ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہے ۔ حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچے شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو کر اپنی جان کی بازی ہارتے نظر آتے ہیں ۔ ضرورت امر کی ہے کہ اس پہ خاص توجہ دی جائے ۔

بچوں اور بچیوں کیلئے کونسلنگ کی کلاسسز کا باقاعدہ اہتمام کیا جائے ۔
کسی عام فرد کے ذہنی بیماری کا شکار ہونے اور کسی ریاست کے اس کی زد میں آنے کے اثرات بہت مختلف ہیں۔ کاش ہم لوگ اپنے بچوں، بچیوں کے طرز عمل پر ان کے بچپن ہی سے نظر رکھیں اور اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں ان کی کونسلنگ کا اہتمام بھی کریں اور اپنی آنے والی نسل کو ڈپریشن اور ذہنی دباؤ سے نکال کر ایک خوبصورت زندگی کی طرف لائیں جس میں لاپرواہ ہنسی کا راج ہو اور ہماری نسل تتلیوں کے سنگ اپنے رنگوں کو نکھارے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :