منشیات ،صحت بحالی کے مراکز اور ہمارا نظام صحت

جمعہ 27 اگست 2021

Aqsa Younas

اقصی یونس

ایک دس سے بارہ سال کا معصوم بچہ سڑک کے کنارے ایسے تڑپ رہا تھا جیسی بن آب مچھلی تڑپتی ہے ۔ اپنی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر وہ اپنی ضرورت پوری ہونے کا منتظر تھا اور اسکی ضرورت ایک نشے کی ایک خوراک تھی ۔ یہ واقعہ آج سے چار سال پرانا ہے جب میں اپنے ماموں کے گھر چھٹیاں گزارنے گئی تھی ۔ اور وہی بازار جاتے ہوئے ایک روتے بلکتے بچے کو دیکھا جو نشے کی طلب پوری نہ ہونے کی وجہ سے کسی بے یارو مددگار بچے کی طرح سڑک پہ اپنی ہی بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔

واپس آ کر میں نے اس بات کا ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کوئی نشے کا عادی بچہ تھا جو نشے کی طلب پوری نہ ہونے کی وجہ سے سسک اور بلک رہا تھا۔ یہ بھی بتایا ایسے واقعات یہاں معمول کی بات ہے کیونکہ جنوبی پنجاب میں نشہ بہت عام ہے۔

(جاری ہے)

بچپن جس کی کھٹی میٹھی یادیں ہمیں کبھی نہیں بھولتی ۔ جس میں بے فکری اور ہنسی کا رقص ہوتا ہے جس میں خوبصورت یادوں کا تانہ بانہ ہوتا ہے ۔

اور جس میں راوی فقط چین ہی چین لکھتا ہے لیکن شاید سب کا بچپن ایسا نہیں ہوتا جیسے اس بچے اور اس جیسے کئی بچوں کا بچپن ۔ ان کا بچپن ایک اندھے کنویں کی نظر ہو جاتا ہے ۔ اور وہ ان اثرات سے زندگی بھر نکلنے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔
جب میں نشے جیسی لعنت پہ لکھنے بیٹھی تو یہ واقعہ  میرے ذہن میں ایسے تازہ ہوا جیسے کبھی بھولا ہی نہ تھا ۔

میں اس واقعے کی وجہ سے کئی ہفتے پریشان اور ذہنی تناؤ کا شکار رہی ۔ میرا اس بچے سے نہ کوئی خونی رشتہ تھا نہ ہی جذباتی فقط انسانیت کا رشتہ تھا مگر آج قلم اٹھاتے ہوئے میں اس بچے کی ماں اور اور اس جیسے کئی بچوں کی ماؤں کی تکلیف کا اندازہ بخوبی کر سکتی ہوں ۔
اس تحریر کو لکھنے کا مقصداپنے معاشرے  میں اس چیز کے بارے میں اگاہی اور ادراک پیدا کرنا ہے کیونکہ معلومات کی کمی کے وجہ سے ہزاروں بچے اور بچیاں اس زہریلے نشے کا عادی بن چکے ہیں اور سب سے زیادہ تعداد  طلبہ اور طالبات کی ہے جو اس خوفناک بیماری یا نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں کیونکہ جب سمگلر ائس ڈرگ یا کسی بھی قسم کے نشے کو فروخت کرتے ہیں تو وہ ان کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ مختلف جڑی بوٹیوں سے تیار کی گئیں دوائی ہے جو آپ کے اندر خفیہ طاقتوں کو اجاگر کرتے ہیں اور اس کے استمال سے آپ اپنی ذہنی صلاحتیں اور قوت حافظہ بڑھا سکتے ہیں اس طرح باتوں سے ان کو ورغلا کر اس نشے کا عادی بنا لیتے ہیں.
آجُ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں چاہے سکول ہو یا کالج ، یونیورسٹی ہو یا مدرسہ بازار ہو یا کوئی پارک منشات کا استعمال ہر جگہ عام ہے ۔

اور چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے اس سنگین لت میں مبتلا ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ لوگ اس نشے کا استعمال کرتے کیوں ہیں۔ تو اسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ جیسے معاشی اور معاشرتی مسائل ، تعلیمی دباؤ ، ذہنی الجھنیں ، بری صحبت ، غربت ، نوکریوں کا فقدان، والدین کی لا پرواہی وغیرہ وغیرہ ۔
جب ہم بات کریں کہ یہ نشہ دنیا بھر میں آتا کہاں سےہے ۔ دنیا بھر میں بھیجی جانے والی 70 فیصد ہیروئن افغانستان میں بنائی جاتی ہے۔

گولڈن ٹرائینگل وہ علاقہ ہے جہاں تھائی لینڈ ، لاؤس اور میانمار کی سرحدیں روک اور میکونگ ندیوں کے سنگم پر ملتی ہیں۔دنیا کی زیادہ تر ہیروئن گولڈن ٹرائینگل سے سمگل کی جاتی ہے۔ہیروئن کی پیداوار کے اعتبا ر سے افغانستان دنیا کا سب سے زیادہ ہیروئن بنانے والا ملک ہے۔ UNODC کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آٹھ لاکھ لوگ روزانہ کی بنا پہ ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں ۔

اور ہر سال 44ٹن ہیروئن کو استعمال کیا جاتا ہے ۔
کولمبیا دنیا کا بیشتر کوکین تیار کرتا ہے-اور پیداوار ریکارڈ سطح پر ہے۔ کولمبیا کوکین کا دنیا کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے ، اور کوکا کی کاشت ، منشیات کی بیس پروڈکٹ ، مسلسل دو سالوں میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ منشیات کے ڈیلر بھی وہاں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں ، کوکین زائرین کو ان کے آبائی علاقوں سے بہت سستی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں۔

یورپی یونین کے یورپی مانیٹرنگ سینٹر فار ڈرگس اینڈ ڈرگ ایڈکشن (EMCDDA) کی ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ انٹورپ یورپی شہر ہے جو سب سے زیادہ کوکین استعمال کرتا ہے۔ بیلجیئم شہر کے باشندے کسی بھی دوسرے یورپی باشندوں کے مقابلے میں زیادہ کوکین استعمال کرتے ہیں۔ امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی (ڈی ای اے) ، انٹرپول اور اقوام متحدہ کے تخمینوں کی بنیاد پر ، اس وقت یورپ میں استعمال ہونے والی ہیروئن کا 90 فیصد افغانستان کی پیداوار سے آتا ہے (یو ایس ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی 2011)۔

یورپ ایک مثالی جغرافیائی علاقہ ہے جس میں ہیروئن کی منڈیوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے کیونکہ متنوع آبادی اور ہیروئن کی کھپت کی شرح فی کس ہے۔ عالمی ہیروئن مارکیٹ میں 11.3 ملین صارفین ہیں جو سالانہ 56 بلین ڈالر اسٹریٹ لیول ڈیلروں کو ادا کرتے ہیں ، جن میں سے یورپ 26 فیصد حصہ لیتا ہے (اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم 2009)۔
منشیات کا استعمال اور خرید و فروخت میں پاکستان میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) نے 2013ء میں پاکستان میں منشیات کے استعمال پر شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور گزشتہ سال ملک میں نشہ کرنے والے افراد کی تعداد 67 لاکھ تھی۔ اس کيے علاوہ 42 لاکھ افراد ایسے ہیں جو ممکنہ طور منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں نشے سے بحالی کے مراکز اور ماہرین کی تعداد بہت کم ہے اور وہ صرف سال میں 30 ہزار افراد کو دستیاب ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہر علاج مفت بھی نہیں کیا جاتا۔
اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نشے سے چھٹکارا حاصل کرنے والے خواہش مند 99.7 فیصد افراد اس علاج کے اخراجات ہی برداشت نہیں کرسکتے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہیں اور یہاں ہزاروں کی تعداد میں افراد اور خاص طور پر نوجوان افیم کی لت کا شکار ہیں۔
ODC ایک اور رپورٹ گلوبل افغان اوپیم ٹریڈ 2011 کے مطابق 2009ء میں پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والی 350 سے 400 ٹن افغان افیم میں سے 132 ٹن افیم پاکستان میں ہی استعمال ہوگئی۔

ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں ہی افغاستان سے کل 160 ٹن ہیروئن پاکستان میں داخل ہوئی اور اس میں سے تقریباً 20 ٹن ہیروئن یہیں استعمال ہوئی۔
عالمی سطح پہ منشیات کی روک تھام کیلئے کچھ موثر اقدامات درج ذیل ہیں۔
UNODC یو این او ڈی سی اقوام متحدہ کی ایجنسی ہے جس کے پاس منشیات پر اقوام متحدہ کے تین کنونشنوں کے نفاذ میں ممالک کی مدد کرنے کا مینڈیٹ موجود ہے1961 کے نشہ آور ادویات پر سنگل کنونشن ، جیسا کہ 1972 کے پروٹوکول میں ترمیم کی گئی ہے۔

1971 کے سائیکوٹروپک منشیات پر کنونشن کے مطابق 1988 کے نشہ آور ادویات اور نفسیاتی مادوں میں غیر قانونی ذرائعے کے خلاف کنونشن ان کنونشنز کی بنیاد پر ، UNODC ممبر ممالک کی مدد کرتا ہے کہ وہ منشیات کے بارے میں اپنی قومی قانون سازی کریں ، اس موضوع پر قومی ، علاقائی اور عالمی سطح پر قانونی فریم ورک قائم کرنے کی کوشش کریں۔ مزید یہ کہ ، یو این او ڈی سی منشیات کے پریشان کن استعمال اور صحت پر اس کے منفی نتائج کے جوابات تیار کرنے میں مدد کرتا ہے ، سائنسی شواہد ، انسانی حقوق اور اخلاقی معیاروں کا احترام کرتے ہوئے ، روک تھام کے اقدامات اور توجہ اور مدد کی مربوط خدمات سر انجام دیتا ہے.
نشہ آور ادویات پر کمیشن (سی این ڈی)اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل نے 1946 میں منشیات سے متعلقہ پالیسیوں کی مرکزی ایجنسی کے طور پر کمیشن برائے نارکوٹک ڈرگز (CND) قائم کیا۔

کمیشن ممبر ممالک کو منشیات کی عالمی صورتحال کا تجزیہ کرنے ، منشیات سے متعلقہ مسائل پر جنرل اسمبلی کے طے شدہ فیصلوں پر عمل کرنے اور اپنے دائرہ کار میں عالمی اقدامات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کمیشن منشیات کے کنٹرول پر تین بین الاقوامی کنونشنوں کے نفاذ کی بھی نگرانی کرتا ہے اور کنونشنز کے تمام ہدف والے علاقوں میں کام کرنے کے لیے اہل ہے اور اس موضوع کے سب سے زیادہ متنوع پہلوؤں پر محیط ہے ، ایک طرف ، مانگ میں کمی میں حصہ ڈالنے کے لیے ، یو این او ڈی سی نشے میں مبتلا افراد کی روک تھام ، علاج اور بحالی کے ساتھ ساتھ منشیات کے استعمال سے وابستہ ایچ آئی وی وائرس کی منتقلی کو روکنے کے منصوبوں کو نافذ کرتا ہے۔

دوسری طرف ، سپلائی کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، یہ غیر قانونی ادویات کی منڈی سے منی لانڈرنگ سے نمٹنے ، غیر قانونی فصلوں کی نگرانی اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے حکومتوں کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے پروگراموں کو فروغ دیتا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) ایک ایسی تنظیم ہے جو امریکی محکمہ صحت اور انسانی خدمات کا حصہ ہے۔

یہ 27 اداروں اور مراکز پر مشتمل ہے۔ یہ ریاست اقوام متحدہ میں پریمیئر میڈیکل ریسرچ ایجنسی ہے ، درحقیقت ، 145 نوبل انعام یافتگان کو NIH کی طرف سے فنڈنگ اور تعاون ملا ہے ، اور یہ ممکنہ طور پر ان اور دیگر NIH محققین کی وجہ سے ہے کہ امریکیوں کی متوقع عمر گذشتہ صدی کے اختتام پر 47 سال سے بڑھ کر 78 سال ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ ، 65 سال سے زائد عمر کے بزرگوں میں معذوری کی شرح گزشتہ 30 سالوں میں بھی نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔


منشیات کی زیادتی اور نشے کے علاج کے دائرے میں ، این آئی ایچ کی مالی اعانت سے چلنے والے مطالعے منشیات کی زیادتی کی نوعیت کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس کے دماغ اور جسم پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے علاج جو صحت اور علاج پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں پر زور دیتے ہیں ۔
سبسٹنس ایبیوز اینڈ مینٹل ہیلتھ سروسز ایڈمنسٹریشن (SAMHSA) امریکی محکمہ صحت اور انسانی خدمات (HHS) کا ایک ادارہ ہے جو صحت عامہ کی مہمات کی قیادت کرتی ہے جو امریکیوں کی صحت کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے۔

منشیات کے عادی خاندان اور ان کے عزیز SAMHSA سے رابطہ کر سکتے ہیں تاکہ منشیات کی زیادتی اور نشے کی لت سے ملک پہ پڑنے والے برے اثرات سے مناسب انتظامات کے ساتھ نمٹ سکیں ۔
سینٹر فار سلوک ہیلتھ سٹیٹسٹکس اینڈ کوالٹی (CBHSQ) SAMHSA کے اندر بنایا گیا تھا۔ CBHSQ ڈیٹا اکٹھا کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ پالیسی سازوں اور محققین کے ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ کچھ علاقوں میں اور بعض آبادیوں میں منشیات کی زیادتی کے رجحانات سے نمٹنے کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ نئی روک تھام کی کوششیں اور علاج وتعلیمی شعور میں اضافہ کیا جا سکے۔

.
امریکہ میں منشیات اور الکحل کے استعمال سے متعلق نئی رپورٹوں کی ریلیز کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے  فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے اپ ڈیٹس بھی پیش کرتا ہے۔
ادویات کے غلط استعمال پر قومی ادارہ (NIDA) نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈرگ ایبیوز (این آئی ڈی اے) نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے تحت آنے والے اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کی کسی بھی ایجنسی کے مقابلے میں منشیات کے استعمال اور لت پر زیادہ تحقیق کے لیے فنڈ دینے کا ذمہ دار ہے۔

این آئی ڈی اے کے فنڈ سے چلنے والے بہت سے مطالعے ان موضوعات کو دیکھ کر منشیات کے استعمال کی گہری اور ضروری تفہیم حاصل کرنے پر مرکوز ہیں جن میں شامل ہیں: ۱) منشیات کے استعمال اور زیادتی کے نئے رجحانات کے بعد۔ ۲)دماغ اور جسم میں مختلف مادوں کے کام کی شناخت۔
۳)روک تھام کے نئے طریقے اور علاج بنانا اور جانچنا۔
UNDCP   اقوام متحدہ
کے دفتر برائے منشیات اور جرائم  
(UNODC ، پہلے اقوام متحدہ کا بین الاقوامی ڈرگ کنٹرول پروگرام یا UNDCP) اور عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مابین ایک باہمی تعاون کا منصوبہ تھا۔

اسے مکمل طور پر ناروے کی حکومت نے فنڈ کیا تھا۔ گلوبل انیشی ایٹو کے ذریعے 100 سے زائد ایسی تنظیموں کی نشاندہی کی جن کا تجربہ کمیونٹی کی سطح پر نوجوانوں کے لیے اور ان کے ساتھ کیا گیا تھا اور جو منشیات  کی زیادتی کی روک تھام کو اپنے کام میں ضم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔
عالمی سطح پہ کام ہو رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اس سنگین مسئلے کو لے کر کتنی سنجیدہ ہے کیونکہ اگر صحت بحالی کے مراکز کی بات کی جائے تو ایسے ادارے پاکستان میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں جبکہ نشے کے مریضوں کی تعداد خوفناک حد تک زیادہ ہے ۔

اور روز بہ روز اس میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔اول تو کسی بھی حکومت نے اس کام کی طرف توجہ ہی نہ کی لیکن اگر کوئی ایسا ادارہ قائم بھی ہوا تو فنڈز کی کمی اور انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے وہ ادارے امید کی کرن نہیں بلکہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 90 لاکھ افراد منشیات کی لعنت میں مبتلا ہیں، جن میں ایک کثیر تعداد طلبا  کی ہے جو زیادہ تر آئس کے نشے کے عادی ہیں۔


بیرونی ممالک میں منشیات کے استعمال کے عادی شہریوں کی بحالی کے مراکز ہوتے ہیں، ان کی نشے کی عادت طبی نگرانی میں بتدریج چھڑائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی رہنمائی اور تھیراپی بھی کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسے کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ ہر مسئلے کا حل صرف قانونی پابندی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر سن 2000 میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں افیون کا نشہ کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا۔

‘‘نیٹ ورک کنزیومر پروٹیکشن‘ کے ڈائریکٹر نے ایک انٹرویو میں  بتایا، ''پاکستان میں فوڈ اتھارٹیز تو ہیں، مگر وہاں ریسرچ کا کوئی انتظام نہیں۔ سرکاری سطح پر منشیات کے عادی افراد کی 'ڈی ٹاکسیفیکیشن‘کی سہولیات دستیاب ہی نہیں۔ اگر یہ سروسز ہیں بھی، تو نجی شعبے میں، جو بہت مہنگی ہیں۔ ایک عام پاکستانی خاندان اپنے کسی فرد کے لیے ان اخراجات کو برداشت کرنے کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔

اس کے علاوہ حکومت کی گزشتہ ڈرگ کنڑول پالیسی کیا تھی، اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں کیا تھیں۔ پھر موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق اس پالیسی میں ترامیم کی جانا چاہییں
لیکن اب وہ وقت ہے جب حکومت کو سنجیدگی سے اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔ عوام کو صرف میٹرو اور اورنجن لائن ٹرینز کی ہی ضرورت نہیں ۔ بلکہ طبی سہولیات بھی اتنی ہی ناگزیر ہیں ۔

اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر شہر میں کم از کم ایک ایسا مرکز قائم ہونا چاہیے جس میں منشیات کے عادی افراد کا علاج کیا جائے اور انہیں بہتریں طبی سہولیات کے ساتھ انکی نفسیاتی تھیراپی بھی کی جائے ۔ اور انہیں بھی حکومت اپنی پوری زمینداری سمجھتے ہوئے نہ صرف قبول کرے بلکہ ان کے ساتھ مکمل تعاون بھی کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ صحت مند زندگی کی طرف قدم بڑھا سکیں ۔


بحالی کا مطلب یہ ہے کہ علاج کے بعد صحت یاب مریض کو معاشرتی ، معاشی اور عزت نفس کے حوالے سے دوبارہ اسی مقام پرلاناجہاں وہ نشہ کرنے سے پہلے تھا ۔ اگر ملازم تھا تو اسے ملازمت پر دوبارہ بحال کروانا ، اگر طالب علم ہے اور نشہ کی وجہ سے سکول جانا چھوڑ دیا تھا تو اسے دوبارہ سکول کالج میں داخل کرانا، گھر میں اُس کا جو مقام تھا وہی اُسے واپس دینا وغیرہ اور یہ بہت مشکل اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔اس لئے مریض کے ادرگرد کے تمام لوگوں کو اس سلسلے میں بھرپور تعاون کرنا چاہیے کیونکہ اگر آپ نے کسی ایک انسان کی زندگی بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :