ملالہ سے متعلق میری غلط فہمی کیسے دور ہوئی

منگل 24 اگست 2021

Aqsa Younas

اقصی یونس

یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والی ملالہ جسے تعلیم کیلئے آواز اٹھانے پہ دہشت گردوں نے تعلیم کیلئے متحرک اس طالبہ کو ختم کرنے کیلئے ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ اللہ کے فضل سے بچ گئی لیکن افسوس یہ کہ وہ انتہاء پسند سوچ آج تک بھی زندہ ہے جو بچیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک میرے خیالات بھی اسی انتہاء پسند سوچ کے تھے کیوں کہ میں بھی سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے ملالہ یوسف زئی کو ایک یہودی ایجنٹ سمجھتی تھی۔

لیکن ایک دن مجھے اپنے استاد اور منٹور  ملک رمضان اسرا صاحب سے اس موضوع پر بحث کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے بڑی تفصیل سے مجھے اس سمجھایا جو کہ ہمیشہ میری مدد کرتے بلکہ ایک مہربان رہنماء استاد کا کردار بخوبی نبھاتے رہتے ہیں بہرحال انہوں مجھے اپنے دو آرٹیکل پڑھنے کا کہا جس میں ایک "ملالہ سے وابسطہ غلط فہمیاں اور حقائق" جو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوا اور دوسرا "ملالہ فوبیا کا شکار افراد کے نام" جو انڈیپنڈنٹ اردو میں شائع ہوا جو آپ گوگل کرکے بھی دیکھ سکتے کو پڑھ کر مزید تحقیقی جائزہ لینے کو کہا میں نے جیسے یہ تحریریں پڑھی یکدم میری سوچ بدل گئی کیونکہ مجھے ان تمام سوالات کے جوابات مل گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کس قدر ایک تعلیم یافتہ انسان بھی جھوٹے پروپیگنڈہ کا شکار ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)


ملالہ پاکستان میں تعلیم کیلئے جدوجہد کرنے والی خواتین میں شامل ہیں۔ اور وہ سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ شخصیت کا خطاب بھی اپنے نام کرنے والی پہلی لڑکی ہیں۔ تعلیم حقوق اور تعلیم نسواں میں کام کرنا انکی وجہ شہرت ہے۔ سوات کے علاقے میں اسکولوں کا ایک سلسلہ ملالہ کے خاندان کی ملکیت ہے۔ 2009ء کی ابتدا میں بارہ سالہ ملالہ نے "گل مکئی" کے قلمی نام سے بی بی سی کے لیے ایک بلاگ لکھا جس میں اس نے طالبان کی طرف سے وادی پر قبضے کے خلاف لکھا تھا اور اپنی رائے دی تھی اپنی رائے کا اظہار ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانی چاہیے۔


پھر ایک سال بعد  جب پاکستانی فوج نے سوات کی دوسری جنگ میں اس علاقے سے طالبان کا خاتمہ کیا تو نیویارک ٹائمز کے صحافی ایڈم بی ایلک نے ملالہ کی زندگی کے بارے ڈاکومنٹری بنائی۔ اور اسطرح ملالہ کو بین الاقوامی سطح پر پزیرائی ملی اور اس کے انٹرویو اخبارات اور ٹی وی کی زینت بننے لگے۔ اس کا نام بین الاقوامی امن ایوارڈ برائے اطفال کے لیے جنوبی افریقا کے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے پیش کیا۔

جسکے بعد ملالہ پر حملہ ہوا اور 12 اکتوبر کو پاکستان کے  50 مذہبی علماء نے ملالہ پر قتل کی کوشش کے خلاف فتوی جاری کیا تھا۔
اس قاتلانہ حملے کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی طور پر ملالہ کی حمایت میں اضافہ ہوا۔ ڈوئچے ویلے نے جنوری 2013ء میں ملالہ کے بارے لکھا کہ وہ دنیا کی مشہور ترین کم عمر بچی بن گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی تعلیم کے نمائندے گورڈن براؤن نے اقوامِ متحدہ کی ایک پٹیشن بنام "میں ملالہ ہوں" جاری کی اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر کے تمام بچوں کو 2015ء کے اواخر تک اسکول بھیجا جائے۔

اس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی بار تعلیم کے حق کا بل منظور ہوا۔ 29 اپریل 2013ء کو ملالہ کو ٹائم میگزین کے اولین صفحے پر جگہ ملی اور اسے دنیا کے 100 بااثر ترین افراد میں سے ایک گردانا گیا۔ اور ملالہ پاکستان کے پہلے یوتھ پیس پرائز کی وصول کنندہ ہے۔
12 جولائی 2013ء کو ملالہ نے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر میں تعلیم تک رسائی دی جائے۔

ستمبر 2013ء میں ملالہ نے برمنگہم کی لائبریری کا باضابطہ افتتاح کیا۔ ملالہ کو 2013ء کا سخاروو انعام بھی ملا۔ 16 اکتوبر 2013ء کو حکومتِ کینیڈا نے اعلان کیا کہ کینیڈا کی پارلیمان ملالہ کو کینیڈا کی اعزازی شہریت دینے کے بارے بحث کر رہی ہے۔ فروری 2014ء کو سوئیڈن میں ملالہ کو ورلڈ چلڈرن پرائز کے لیے نامزد کیا گیا۔ 15 مئی 2014ء کو ملالہ کو یونیورسٹی آف کنگز کالج، ہیلی فیکس کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ دی گئی۔


حال ہی میں ملالہ نے معروف میگزین ووگ کو انٹرویو دیا جو ووگ کے صفحہ اول کے شمارے میں سر ورق پر پاکستان کا نام روشن کرتی نظر آئے گی لہذا کچھ افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ووگ کا کور پیج بھی اپنی طرز کا ایک ریکارڈ بنائے گا جب اس پہ ملالہ 20 ارب کی فیشن انڈسٹری کو پیچھے چھوڑ کر مکمل مشرقی لباس اور دوپٹہ زیب تن کیے نظر آئیں گی۔
ہم اکیسوی صدی کی تعلیم یافتہ قوم ہیں اور تعلیمی ڈگریاں اکٹھی کرنے کی دوڑ میں تقریبا ہر دوسرا شخص ڈبل ٹرپل مضامین میں ماسٹرز کر رہا ہے۔

لیکن ایک بات واضح ہے کہ محض ڈگریاں حاصل کرلینے سے شعور نہیں آجاتا اور ناہی ان کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔ پر کاش ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ شعور یافتہ ہونا بھی اہم ہے ورنہ وہیں بات ہوئی کہ گدھا پر کتابیں لادنے سے وہ کچھ حاصل وصول نہیں کرلیتا۔ اور بدقسمتی سے ہم جہالت کے اس نچلے گڑھے میں جا گرے ہیں کہ اب ہم تک جو بھی بات کوئی جیسے تیسے توڑ مروڑ کر پہنچا دے ہم اسکی تحقیق تک کرنا گوارہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس پیغمبر اسلام  حضرت محمد ص کی امت ہیں جنہوں نے ہر بات کی تحقیق کرنے پر ناصرف  زور دیا بلکہ عملی نمونہ بھی پیش کیا۔

لہذا میں سب سے پہلے تو ملالہ خاندان سے اس غلط فہمی پر معذرت کرتی ہوں اور سوال یہ ہے کہ کیا ملالہ پر الزامات لگانے والوں کے پاس غداری کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا آپ نے کبھی خود اسے کسی ایسے کام میں ملوس دیکھا اگر نہیں تو آئیں آج عہد کر لیں شعور یافتہ قوم بننے کا اور بغیر تحقیق کے بات کو آگے نہ پھیلانے کا  اور نفرتوں کے اس جنجال سے خود کو نکال کر امن اور سکون کا درس دینے کا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :