
یکساں قومی نصاب ، ہمارا تعلیمی نظام اور حلومتی طرز عمل
منگل 28 ستمبر 2021

اقصی یونس
2018میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران جان نے بھی پوری قوم کو خوب سبز باغ دکھائے ۔ اور بلند و بانگ دعوے کیے ۔ ان بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ یکساں قومی نصاب کا وعدہ بھی کیا جو 2021 میں پورا بھی کر دکھایا ۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے انتخابی منشور میں اہم مشن یکساں قومی نصاب کو رائج کرنا بھی شامل کیا ۔
(جاری ہے)
یکساں نصاب کی اصطلاح آج کل زبان زدعام ہے۔ ایک قوم، ایک نصاب کا نعرہ بڑے جوش و خروش سے لگایا جا رہا ہے۔ نئے سلیبس کے مطابق کتابیں چھپ کر بچوں تک پہنچ چکی ہیں۔ کچھ لوگ اس سے خوش ہیں مگر زیادہ تر شاکی ہیں۔ اخباروں میں آئے دن اس پر مضامین چھپتے ہیں اور برقی ذرائع ابلاغ پر بھی اس کا چرچا ہے۔ یعنی یکساں تعلیمی نصاب آج کل موضوع گفتگو ہے
یکساں نصاب تعلیم یعنی ایک جیسا سیلبیس۔ SNCلیکن یکساں نصاب صرف کتابیں ایک کرنے سے نہیں ہوتا ۔ نصاب میں ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں ، اساتذہ کی تربیت و اہلیت ، اداروں میں موجود سہولیات یعنی لائیبریری لیبارٹریز ، کھیل کے میدان اور بجٹ سب شامل ہوتا ہے ۔ تو حکومت نے یکساں نصاب تو متعارف کروا دیا لیکن اس میں ابھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پہ گورنمنٹ نے بغیر کسی ہوم ورک کے اسے اداروں پہ جبرا مسلط کر دیا ۔
جب بات کی جائے ہمارے تعلیمی نظام کی تو ہمارا تعلیمی نظام تین حصوں میں تقسیم ہے ۔ پہلا پرائیویٹ ادارے جن کا حصہ صرف وہ بچے بن سکتے ہیں جو منہ میں سونے کاچمچ لے کر پیدا ہوں کیونکہ اگر پرائیویٹ سکول میں معیار تعلیم بہترین ہے تو انکے اخراجات بھی بے دریغ ہیں جو عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں ۔۔۔ دوسری جانب سرکاری سکول یہاں مڈل کلاس طبقے کے بچے تعلیم سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ تیسرا ہے مدارس کا نظام جہاں پر صرف غریب ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے طلباء ملیں گے۔
جب ایک نظر پبلک سیکٹرز کے تعلیمی اداروں کا مشاہدہ کریں تو صرف مایوسی ہمارا منہ چڑھاتی نظر آئے گی ۔ بیشتر پبلک سکول ایسے ہیں جہاں بنیادی ضروریات کا بھی فقدان عظیم ہے ۔ کچھ پرائمری سکولوں کیلئے ایک استاد اور ایک کمرہ میسر ہے ۔ چاردیواری جیسی سہولیات کا بھی شدید فقدان ہے ۔ اور مڈل اور سکنڈری سکول کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں جہاں نہ تو پڑھانے کیلئے اعلی تربیت یافتہ لوگ موجود ہیں نہ ہی بنیادی ضروریات ۔ جہاں نہ صرف تجربہ گاہوں کا فقدان ہے بلکہ کئی سکول ایسے ہیں جہاں پڑھانے کیلئے ٹیچنگ سٹاف بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ دوسری جانب پرائیویٹ سکول میں نہ صرف تمام تر سہولیات میسر ہیں بلکہ ماہر اور تربیت یافتہ استاد بھی موجود ہیں ۔ جہاں کھیلوں کے لئے علیحدہ استاد، پلے گراؤنڈ، لائبریری، لیبارٹریز اور ہم نصابی سرگرمیوں کا پورا انتظام موجود ہے۔
حکومت نے ان تمام تر ضروریات کیلئے نہ تو کوئی بجٹ مختص کیا اور نہ ہی آئندہ کیلئے کوئی لائحہ عمل طے کیا ۔ اس لئے سنگل نیشنل کریکولم (یکساں تعلیمی نصاب ) کا نفاذ عمل میں آیا یہ کہنا تو سراسر زیادتی ہوگی۔ لیکن اگر ہم سلیبیس کی بات کریں تو اس میں بھی یکساں کا لفظ ہمیں بضاط خود ایک مزاق لگتا ہے ۔ کیونکہ اپنی طرز کا سلیبیس اور اپنی کتابیں چھاپنے کا این او سی ایچی سن۔ لاہور گرائمر اور بیکن ہاؤس جیسے اداروں کو مل چکا ہے ۔
وزارت تعلیم کی مقرر کردہ ایڈوائزر عائشہ رزاق نے اس پر کہا ہے کہ حکومت نے جو پیرامیٹز
مقرر کیے ہیں ۔ انہیں پورا کرنا ہر ایک کیلئے لازم ہے
اس سے اوپر وہ جتنا چاہے جا سکتے ہیں۔ تو کم زیادہ، اونچ نیچ اب بھی برقرار ہے۔صرف یہی نہیں حکومت نے ابھی تک ایسسمنٹ کیلئے کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا بلکہ اس پہ وزیر تعلیم مراد راس کا کہنا ہے کہ تمام اداروں کو یہ آزادی حاصل ہوگی کہ وہ اپنے طریقے سے امتحانی طریقہ وضح کر سکتے ہیں ۔
لیکن پھر بھی یہا ں پہ یکساں لفظ بھرپور توجہ کا مستحق ۔ جب سب ادارے اپنے کتابیں خود پبلش کریں گے موضوعات کو کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے امتحانی طرز عمل بھی اپنی مرضی پہ منحصر تو بھئی یکساں تعلیمی نصاب کا چورن نہ ہی بیچتے تو اچھا تھا۔
ہم ایک جمہوری ریاست میں سانس لے رہے ہیں ۔ جمہوریت میں یکسانیت نہیں ہوتی ۔ سب کو ایک ہی نصاب پڑھانا تو آمیریت میں آتا ۔ جمہوری نظام میں لوگوں کو حق رائے دیا جاتا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب میں کہا کہ یکساں قومی نصاب میرا بیس سال سے ویژن تھا ۔ کیا انھیں لو گوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ ان کی تعلیمی اور فکری آزادی سلب کرنا تھی۔ اور انھیں ایک مشین میں سے نکلے ہوئے روبوٹ بنانا تھا۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں یکساں نصاب تعلیم نہیں ہے۔ بلکہ تعلیمی آزادی کا پرچار کیا جاتا ہے تاکہ تنقیدی شعور پیدا ہو اور نئے آسمانوں کو سر کرنے کی تراکیب پیدا ہوں ۔ وزیر اعظم نے ایک اور تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں یکساں نصاب کا نہ ہونا طبقاتی تقسیم کا باعث ہے ۔جبکہ یہ تو
معاشیات کا سادہ سا اصول ہے کہ طبقاتی تقسیم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جب غریب سے غریب تر اور امیر امیر سے امیر تر ہوگا تو طبقاتی نظام کی جڑیں تو خود بخود مضبوط ہوں گی
جب سرکاری سکول کی بات کی جائے تو تقریبا دو لاکھ سکول ایسے ہیں جو غیر فعال پڑے ہیں کئی سکول ایسے ہیں جو اپنی جستہ حالی پہ ماتم کنا ہیں تقریبا 48 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں بنیادی ضروریات یعنی چار دیواری اور واش روم تک کی سہولت موجود نہیں ۔ اور ہی نہ پینے کے صاف پانی کی سہولت موجود ہے باقی مدارس کا تو اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ اکثر مدارس چندوں پہ چلتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ بچے پرائمری تعلیم سے بھی محروم ہیں ۔ تو یکساں نصاب کا چورن بیچنے سے پہلے حکومت نے اس سلسلے میں کوئی اقدامات کئے یا نہیں یہ بات بھی قابل فکر اور قابل غور ہے۔ کیا یکساں نصاب سے وہ جو دو ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں وہ پڑھنے لگ جائیں گے؟ کیا سرکاری اسکولوں میں اس اقدام سے تعلیم کا معیار بہتر ہوجائے گا؟
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مدارس میں سائنس کیسے پڑھائی جائیگی۔ جس طرح سائنس پڑھائی جانی چاہئے، اس طرح سے مدارس میں کبھی پڑھائی نہیں گئی۔ سائنس میں رٹہ کام نہیں آتا بلکہ عقل و خرد کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور مدارس میں لیباٹری نام کی تو کوئی شے کبھی دیکھی نہ گئی جبکہ سائنس تو نام ہی تجربات کا ہے۔ مدارس کی تعلیم ہمیں زندگی بعدالموت کے لئے تیار کرتی ہے جبکہ اسکولوں کی جدید تعلیم ہمیں اِس دنیا کے لئے تیار کرتی ہے۔ ان دو مقاصد کو یکجا کرنا ناممکن ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے مطابق تعلیم ایک صوبائی معاملہ ہے اور تمام صوبے اپنے تعلیمی نظام کے معاملات خود طے کر سکتے ہیں ۔صوبہ سندھ نے بڑی جرات مندی کے ساتھ اس یکساں تعلیمی نصاب کو مستر د کر دیا اور انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ سندھ کے مقامی ہیرو، سندھی زبان اور سندھی ثقافت کو سلیبس میں مناسب جگہ دی جائے گی اور وہ اپنا سلیبس صوبائی سطح پر ہی تیار کریں گے۔ اور وفاقی وزیر کی جانب سے تیار کردہ نصاب جو پہلے مرحلے میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کیلئے تیا ر کیا گیا ہے ۔ اس میں آئین کے آرٹیکل 22 (1) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات عامہ کی کتب میں بہت سا مذہبی مواد شامل کیا گیا ہے ۔
عدالت عظمیٰ کے 19 جون 2014 کو اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تاریخ ساز فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے جنوری 2019 میں یک رکنی کمیشن کا قیام عمل میں آیا، جس کے سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل ہیں۔
ڈاکٹر شعیب سڈل کے مطابق بھی اردو انگریزی اور معلومات عامہ کے لازمی مضامین میں اسلامی موضوعات شامل کرنا آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے ۔ اور یوں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبا بھی اسلامی مواد پڑھنے پہ مجبور ہوں گے ۔
حکومتی وزرا نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب لازمی مضامین میں اسلامی اسباق آئیں تو اقلیتی طلباء کو جماعت سے باہر جانے کی اجازت ہوگی ۔ تو یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یوں یہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہوگا کیا ؟؟؟ اور اگر بچے وہ موضوعات پڑھ ہی نہ پائیں گے تو کیا انکے لئے ایسسمنٹ کا طریقہ بھی مختلف ہوگا ؟
علاوہ ازیں مدرسوں کے مولانا اور تمام مسالک کو خوش کرنے کے لئے پرائمری کے بچوں پر اسلامیات کا بھاری سلیبس ڈال دیا گیا ہے جو کہ سکولوں کو مدرسوں میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ ہم صرف جماعت سوم کے اسلامیات کے سلیبس کا جائزہ لیں تو اس میں بچے کو پارہ تین سے آٹھ تک ناظرہ پڑھنا ہے۔ آٹھ احادیث یاد کرنی ہیں۔ سورہ فاتحہ، کوثر، اخلاص، الناس اور نصر یاد کرنی ہے۔ اللہ اکبر، استغفراللہ، جزاک اللہ خیرہ اور درود ابراہیمی ترجمے کے ساتھ یاد کرنا ہے۔یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ کیا اتنے چھوٹے بچے اتنا سارا سیلبس جذب کر سکیں گے ؟ اور نفسیات کے مطابق بچے بچوں کو کچھ بھی سکھانا ہو تو مختلف سرگرمیاں کروانے سے بچے سیکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں بس بچے کو رٹو طوطہ بنانے پہ ساری توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
فقط یہی نہیں کھانا شروع کرنے اور ختم کرنے کی دعا یاد کرنی ہے۔ توحید کا تعارف نبوت اور رسالت کا تصور پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت بمع ترجمہ پڑھنا ہے۔ سیرت نبوی، اخلاق و آداب، حقوق العباد سے متعلق پڑھنا ہے۔ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے بارے میں پڑھنا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں صحت کے مسائل پڑھنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اذان، وضو، قبلہ، مسجد اور نماز کے بارے میں سیکھنا ہے۔ جبکہ تنظیم المدارس میں تیسری جماعت کے بچے کو پہلے پانچ سپارے ناظرہ پڑھنے ہیں اور اذان، وضو، قبلہ، مسجد اور نماز کے بارے میں تربیت حاصل کرنا تھی۔ تو سکول کا اسلامیات کا موجودہ سلیبس مدرسے کے پچھلے سلیبس سے زیادہ ہے۔ تیسری جماعت کے بچے کو اردو بولنا تو ٹھیک سے آتی نہیں وہ عربی کا اتنا زیادہ کورس کیسے پڑھے گا؟
ایک شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس کورس کیلئے دو لاکھ ساٹھ ہزار سکولوں میں فی سکول دوعلماء کے حساب سے تقریبا پانچ لاکھ بیس ہزار علماء درکار ہوں گے ۔یہ یکساں قومی نصاب کے منصوبے کا حصہ نہیں مگر یہ اب یکساں قومی نصاب کی ضرورت ہے ۔ صرف یہی نہیں ابھی یہ بھی طے کرنا باقی ہے کہ ان علماء کا تعلق کس مسلک اور فرقے سے ہوگا اور اس سے مزید کتنی فرقاواریت کو فروغ ملے گا ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدارس کے بچوں کو سکول کے بچوں کے برابر لا کر کھڑا کیا جاتا یہا ں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ جدید سکول کے بچوں کو بھی مدارس کے بچوں سے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے ۔ اور اب علماء کے اعتراضات بھی سامنے آ رہے ہیں ۔ متحدہ علماءکونسل نے بیالوجی کی کتابوں پہ اعتراض اٹھائے اور کہا کہ اس میں برہنہ ڈائیگرامز اور ایسی برہنہ باتیں شامل ہیں جو دین کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ سائنس کی کتابوں کی معلومات طلبہ میں فحاشی پھیلانے کا باعث بنے گی ۔ تو میری حکومت وقت سے ایک چھوٹی سی در خواست ہے کہ وہ ذرا سوشل میڈیا پہ پھیلی پورنوگرافی اور ڈارک ویب پہ موجو د مواد پہ بھی ایک نظر ثانی ضرور کریں جو ملک میں روز بروز بڑھتے جنسی حراسانی اور زیادتی کے واقعات میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے ۔
حضرت محمدﷺ نے جدید علوم کے حصول پر خاص زور دیا۔ جنگ بدر کے بعد ان کے پاس جو غیر مسلم جنگی قیدی تھے ان میں سے ہر ایک کو ایک مسلمان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے بدلے میں آزاد کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ جنید بغدادی کا بھی قول ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین ہی نہ جاناپڑے۔
چند دن پہلے مریم چغتائی سے میڈیا کو بات کرنے کا موقع ملا۔ جب ان سے پوچھا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور جنسی ہراسانی کے ایشوز کو ایڈریس کرنے کے لئے SNC میں کیا شامل کیا گیا ہے؟ انھوں نے کہا ابھی تو کچھ نہیں شامل کیا گیا۔ لیکن کتابوں پر نظر ثانی ہو گی۔ جبکہ میرا یہ ماننا ہے کہ اب اس امر کی بے حد ضرورت ہے - کہ انہیں Good touch اور bad touch کی تمیز سکھائی جائے ۔
اور انہیں اپنی حفاظت کی تربیت دی جائے نہ صرف یہ بلکہ انہیں دوسرے انسانوں اور مخالف جنس کی عزت کرنا سکھانا چاہیے۔یہ بات بچوں کے نصاب کا حصہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنا تحفظ کر سکیں ذمیندار شہری بنتے ہوئے دوسروں کا احترام کریں اور ایک تربیت یافتہ معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔
اس نصاب پہ حکومت کو واقعی نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس یکساں قومی نصاب کا چورن قوم کو چٹانے کی جلدی تھی ۔ حکومت کو ایسی پالیسی اور ایسا نصاب لانے کی ضرورت ہے جو جدید معیار پہ پورا اترتا ہو جس سے طلبہ کی شعوری صلاحیت کو اجاگر کیا جائے اور نصاب میں زیادہ سے زیادہ پریکٹیکل ورک کوشامل کیا جائے تاکہ آنے والے وقت میں پاکستانی طلبہ بھی ریسرچ کے میدان میں واضح کامیابیاں حاصل کریں ۔ امتحانی نظام بہتر ہو۔ اساتذہ کی بہترین تعلیم و تربیت ہو۔ سکولوں میں بہترین انفراسٹرکچر ہو۔ اس سب کے لئے سوچ کی تبدیلی اور ذرائع کی بھرپور تخصیص ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر قومی ترجیحات کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اقصی یونس کے کالمز
-
نفسیاتی الجھنیں اور ہمارا معاشرہ
منگل 4 جنوری 2022
-
"وراثت کا حق اور ہمارے معاشرے کی خواتین "
منگل 16 نومبر 2021
-
بے روزگاری اور ہمارے نوجوانوں کی نفسیاتی الجھنیں
جمعہ 5 نومبر 2021
-
یکساں قومی نصاب ، ہمارا تعلیمی نظام اور حلومتی طرز عمل
منگل 28 ستمبر 2021
-
منشیات ،صحت بحالی کے مراکز اور ہمارا نظام صحت
جمعہ 27 اگست 2021
-
ملالہ سے متعلق میری غلط فہمی کیسے دور ہوئی
منگل 24 اگست 2021
-
افغان سپانسرڈ ٹرینڈ کی دوڑ
ہفتہ 21 اگست 2021
-
"وجودزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ "
ہفتہ 12 جون 2021
اقصی یونس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.