افغان سپانسرڈ ٹرینڈ کی دوڑ

ہفتہ 21 اگست 2021

Aqsa Younas

اقصی یونس

چنددن پہلے افغان سپانسرڈ ٹرینڈ چلا رہ تھے: پابندی پاکستان۔ اور 48 گھنٹے بعد وہ بزدلوں کی طرح دوڑ رہے ہیں۔
گزشتہ کچھ روز پہلے ٹویٹر پہ #Sanctionpakistan کا ٹرینڈ چلتا رہا ۔ جو کہ پاکستان کے خلاف افغانستان اور بھارت کا پراپیگنڈہ  تھا ۔ تو یہاں یہ بات میں واضح کرتی جاؤ کہ سینسکشن پاکستان اسلئے ہے کہ ہم چالیس سال سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ آٹھائے پھر رہے ہیں ۔

یا اسلئے کہ معاشی طور پہ ایک کمزور ریاست ہونے کے باوجود ہم نے 40 سال اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کا ایسا بوجھ اٹھایا جو نہ ہمارا فرض تھا اور نہ ہی ہم پہ واجب تھا ۔ صرف یہی نہیں 20 سال ہم نے افغانستا ن میں امن کی کوشیشوں میں اپنے 70 ہزار فوجیوں کا نظرانہ پیش کیا ۔ یعنی ہمسائے ملک میں امن کیلئے ہم نے اپنے 70 ہزار خاندانوں کو اجاڑ دیا ۔

(جاری ہے)


خطے میں امن اور استحکام کیلئے دوسرے ممالک کے ساتھ پر امن تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی مسلمان اکثریت والے ممالک  ہیں لیکن دونوں کے تعلقات گزشتہ کئی دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کیوں کشیدہ رہتے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے تاریخ کا تھوڑا سا مطالعہ ضروری ہے۔


پاکستان ہمیشہ امن کا داعی رہا ہے ۔ اور پاکستان نے ہمیشہ اپنے ہمسائے ممالک سے پرامن مزاکرات اور تعلقات پہ زور دیا ہے مگر بدقسمتی سے چاہے بھارت ہو یا افغانستان دونوں ممالک ہی کبھی پاکستان کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے پہ راضی نہ ہوئے ۔ پاکستان نے اس سلسلے میں ستر ہزار جانوں کا نظرانہ بھی پیش کیا مگر جن کے خون میں وفا شامل نہ ہو وہ کبھی وفا کر ہی نہیں سکتے ۔

نمک حرام افغان ہمیشہ سے ہی پاکستان پہ وار کرتے نظر آئے ہیں ماضی کے دریچوں میں نظر دوڑانے سے معلوم ہو گا کہ کیسے افغانستان نے ہمشہ پاکستان کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس مخالفت کا کھلم لھلا اظہار بھی کیا۔ جب بات کی جائے افغانستا ن کی  مخالفت کی تو قیام پاکستان کے بعد ہی سے انکی عداوتیں کھل کر منظر عام پہ آگئی تھی جب 30 ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔

تب افغانستان کی نفرت اور انکی عداوت کھل کر تمام دنیا کے سامنے آگئی مگر یہ سلسلہ یہی نہیں رک گیا بلکہ ستمبر 1947ء میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ ” پشتونستان” کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی۔47ء میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔

قائد اعظم محمد علی جناح صاحب نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا۔
1948 میں افغانستان نے ” قبائل ” کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔1948میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنے۔ 1949ء میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔

12 اگست 1949ء کو فقیر ایپی نے باچا خان کے زیر اثر افغانستان کی پشتونستان تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
اور یہ سلسلہ آج بھی رکا نہیں ۔ افغانستا ن اپنی خود ساختہ دشمنی اور بغض میں اتنا اندھا ہوگیا کہ اسے کبھی نظر ہی نہ آیا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستا ن میں امن قائم کرنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ ہمیشہ امن قائم کرنے کے لئے آگے بڑھ کر اقدامات بھی کئے ۔


افغانستان میں بیرونی جارحیت کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں کا بہت بڑا اثر پاکستان پر پڑا جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں ہیں جن کی وطن واپسی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔اس کے علاوہ افغانستان میں لڑی جانے والی ان جنگوں کے پس منظر میں پاکستان کےخلاف بھی درپردہ جنگیں لڑی گئیں جن سے وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہوئی۔

گزشتہ دہائی میں دہشت گردی کے باعث پاک افغان دوریوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پاکستان میں بسنے والے افغان مہاجرین کے خلاف ردعمل ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام خاص کر سابقہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے افراد کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کے دوران کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے حالات کا دھارا ایسا پلٹا کہ امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی ۔


38 دن پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے دنیا کو یقین دلایا تھا کہ کابل کو طالبان‬⁩ فتح نہیں کر پائیں گے۔وقت کسی کے باپ کی جَاگِیر نہیں اور نہ ہی  سَدا حُکمرانیاں قائم رہتیں۔اللّٰہ جِسے چَاہے عِزت دیتا ہے
اب امریکہ کی فوج کے انخلا کے بعد جب سارا منظر ہی بدل چکا ہے اشرف غنی نہ صرف اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے بلکہ ملک چھوڑ کر فرار بھی ہوگئے اشرف غنی نے دس دن پہلے کہا تھا کہ “وہ افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کی عزت کرتے ہیں مگر وہ بھاگ گئے تھے۔

تاہم میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔” لیکن طالبان کی فتح کو دیکھ کر اشرف غنی رات و رات ملک سے فرار ہو گیا ۔
جہاں ایک طرف افغانستان کو اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حقیقی تصویر بنے دیکھ کر لبرلز کی چیخیں نکل رہی ہیں تو دوسری جانب بھارت کے حالات بھی مختلف نہیں ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ طالبان نے بھارت کے آزادی کے جشن کی جگہ بھارت میں صفے ماتم بچھا دی ۔

یہ ماتم فقط انڈیا تک محدود نہیں اس کی آہ و زار امریکہ سے بھی سنائی دے رہی ہے جہا ں جوبائیڈن نے نہ صرف اس بات کو تسلیم کیا کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ
“جب افغانی فوجی ہی نہیں لڑتے تو امریکی فوجیوں کو افغانستان کیلئے جنگ میں جھونکنا سراسرغلط ہوگا”
صدرجوبائیڈن کا مزید کہناہےکہ"ہم نےٹریلین ڈالرزخرچ کیے،ہم تین 3لاکھ فوجیوں کومسلح کیاانہیں تربیت دی،امریکی فوجی ایسی جنگ میں نہیں لڑسکتےجوجنگ افغان فورسزخودلڑنےکےلیےتیارنہیں ہیں"
‏⁦
افغانستان کی حکومت کے ساتھ مل کر بھارت نے کئی دفعہ پاکستان میں نہ صرف حملے کئے بلکہ بڑی بڑی سازشیں بھی سرانجام دی ۔

اشرف غنی کے افغانستان سے جانے کے بعد وہاں سے ایسے ثبوت بھی ملے جن سے یہ واضح ہے کہ اشرف غنی مودی سرکار کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ہابرڑ وار لڑتا رہا بین الاقوامی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہندوستان سے جواب مانگیں کہ پاکستان کے خلاف غنڈہ گرد تنظیموں کی پشت پناہی کیوں کرتا رہا ہے،
‏کیوں بھارت کے ریٹائر فوجی  چند افغانیوں کو ملا کر سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف پروپیگندہ کرتے رہے ۔


 پورے افغانستان پہ طالبان کا قبضہ ہے تو اس صورتحال میں کافی سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ افغان طالبان نے 21 جولائی سے 15 اگست کے درمیان جس برق رفتاری سے تقریباً پورے افغانستان پر قبضہ کیا ہے اس نے پوری دنیا کو ورطہِ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ جہاں بیشتر ممالک کے لوگ افغانستان میں تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں وہاں کے شہریوں کی سلامتی اور حقوق کے لیے پریشان ہیں وہیں کئی اسلامی ممالک کے عوام بشمول پاکستانیوں کے لیے کابل پر طالبان کے قبضے نے فتحِ مکہ کی یادیں تازہ کر دی ہیں اور وہ افغانستان میں اسلامی حکومت کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔

اور اس خواب کی تعبیر کی کئی شکلیں بھی نظر آئی جب غیر ملکی صحافی عورتیں تک دوپٹہ اوڑھے اپنے فرائض انجام دیتی نظر آئی
20 سالوں میں افغانستان میں جو غیر یقینی صورتحال بن رہی تھی اور پاکستان بار بار کہہ رہا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، اس حوالے سے لوگوں کے کچھ خدشات تھے کہ کیونکہ افغانستان میں اینٹی پاکستان حکومت تھی ۔

لیکن اب جو ہوا ہے، اس پر پہلے تو لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا لیکن جب بغیر گولی چلائے طالبان کابل میں داخل ہو گئے، اس سے پاکستان کے لوگوں کو اطمینان ہوا ہے اور ان کے دلوں میں جو خدشات تھے وہ دم توڑ گئے ہیں۔‘
پاکستان نے سرحد پر باڑ تو لگائی تھی لیکن اس کے باوجود ڈر تھا کہ افغانستان میں بدامنی، پاکستان میں بھی بدامنی کا باعث بنے گی۔

’اب وہ ڈر ختم ہو گیا ہے اور اشرف غنی حکومت کے جو لوگ پاکستان سے خوش نہیں تھے وہ بھی اب پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں جنہوں نے پاکستان میں افغانستان کا راستہ استعمال کرتے ہوئے نہ صرف بدامنی پھیلائی بلکہ دہشت گردی کی وارداتوں کو پروان چڑھایا -
وزارت داخلہ کے مطابق ، کچھ پاکستان مخالف قوتیں پاکستانی عوام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کی موجودہ لہر 2000 میں شروع ہوئی اور 2009 کے دوران عروج پر رہی۔

تب سے پاک فوج کی طرف سے کی جانے والی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں اس میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل انڈیکس (ایس اے ٹی پی) کے مطابق ، پاکستان میں دہشت گردی میں 2009 کے بعد سے 2017 میں 89 فیصد کمی آئی ہے۔2001 کے بعد سے ، پاکستان کی فوج نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن کا سلسلہ شروع کیا تھا اس آپریشن نے ان علاقوں اور باقی ملک میں امن قائم کیا۔

مختلف دہشت گرد گروہوں سے تعلق رکھنے والے کئی دہشت گرد مارے گئے۔ تاہم ، کچھ عسکریت پسند افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ افغانستان سے ، ان عسکریت پسندوں نے سرحد کے قریب واقع پاکستانی فوجی چوکیوں پر حملے جاری رکھے۔ 2010  میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اعتراف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا افغانستان میں پاؤں ہے۔

2019 میں ، ریاستہائے متحدہ کے محکمہ دفاع نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے تقریبا 3،000 3 ہزار سے 5 ہزار دہشت گرد افغانستان میں ہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی رپورٹ کے مطابق 23،372 پاکستانی شہری اور 8،832 پاکستانی سیکورٹی اہلکار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مارے گئے۔ مزید یہ حکومت پاکستان کے مطابق 2000-2010 سے دہشت گردی کے براہ راست اور بالواسطہ معاشی اخراجات $ 68 بلین تھے ۔

2018پاکستانی معیشت کو 2001 کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے 126.79 بلین ڈالر کا مجموعی نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستانی حکام اکثر بھارت اور افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت کا الزام دیتے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے الزامات کی تردید کی۔ تاہم افغانستان نے اعتراف کیا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے دہشت گرد گروہوں کو مدد فراہم کرتارہا۔


بہرحال ماضی کے سیاہ اورق ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جس  میں پی ٹی ایم، را ، این ڈی ایس کی پاکستان مخالف قوتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی مگر اب جب سارا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں ہے تو توقع کی جارہی ہے کہ طالبان کی حکومت سے پاکستان مخالف قوتیں نہ صرف کمزور ہوئی ہیں بلکہ اپنے مستقل ٹھکانوں جو کہ  افغانستان میں ہیں سے بھی انہیں ہاتھ دھونا پڑے گا
امریکیوں نے افغانستان میں 19 سالوں میں 151،000 افراد کو قتل کیا۔

را اور این ڈی ایس نے افغانستان میں بیٹھے پاکستان میں 70 ہزار لوگوں کو مارنے میں مدد کی۔ لیکن طالبان نے نہایت پرامن طریقے سے دو ہفتوں کے قلیل عرصے میں پورے افغانستان پر اپنا کنٹرول حاصل کیا
طالبان نے کسی کو قتل نہیں کیا جب انہوں نے کابل کو غنی حکومت سے آزاد کرایا۔ لیکن مبینہ طور پر امریکی فوجیوں نے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر افغانوں کو بھیڑ اور بھگدڑ پر قابو پانے کے لیے ہلاک کیا۔


خوشی ہے کہ این ڈی ایس فیل این کا ادارہ بری طرح سے فیل ہوا این ڈی ایس اپنی موت آپ ماری گئی اور را کو منہ کی کھانی پڑی اب افغانستان میں بی ایل اے کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور امید ہے کہ اب خانہ جنگی بند ہو جائے گی اور افغانستان میں بیرونی قوتوں کا عمل دخل بند ہوجائے گا اور خطے میں امن و امان کی بحالی ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :