"وراثت کا حق اور ہمارے معاشرے کی خواتین "

منگل 16 نومبر 2021

Aqsa Younas

اقصی یونس

بھائی عشاء کی نماز پڑھ کر لوٹا تھا کہ بہن نے اپنا مدعہ بیان کیا بس پھر کیا تھا پورے گھر میں کہرام مچ گیا۔
بھائی میں کچھ غلط نہیں کہہ رہی بس شریعت کے مطابق وراثت میں اپنا حصہ مانگ رہی ہوں ۔ بھائی جو اکثر مسجد میں امامت کرواتا تھا صوم و صلوتہ کا پابند تھا اس بات پہ غصے سے آگ بگولہ ہو گیا ۔ اور غصے میں یہ کہہ کر گھر سے نکل گیا کہ ہم نے جو دینا تھا اسے شادی پہ جہیز کہ نام پہ دے دیا اب اگر اسے اس گھر سے کچھ چاہیے تو ہمارا اس سے ہر تعلق اور ہر رشتہ ختم ہم اس کیلئے مر گئے اور یہ ہمارے لئے ۔

اور بس پھر اسے بے غیرت سے لے کر بے حیا تک سارے القابات سے نوازا گیا ۔
یہ کہانی کسی ایک گھر کی نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ ہم عورت کو وراثت میں حق کے نام پہ دو لاکھ نہیں دیتے جوکہ شریعت کا حکم ہے مگر جہیز کے نام لاکھوں لٹا  دیتے ہیں جبکہ جہیز کو ایک لعنت قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)


وراثت کے قوانین کسی ریاست کی قانون سازی کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور وراثت کے ذریعے مرنے والے کی جائیداد منصفانہ طریقے سے دوسروں تک منتقل کی جاتی ہے اور یہ کسی بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی کہ جائیداد کی منصفانہ تقسیم کو عمل میں لائے۔

   
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس میں وراثتی قوانین  قرآن و سنت کے احکامات کے مطابق رائج کیے گئے ہیں ۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں عملی صورت حال یہ ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ عورتوں کو  شریعت اور قانون کے مطابق حق وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔
 بالخصوص غیر منقولہ جائیداد کے معاملے میں اس مقالہ میں عورت کے شرعی حقوق وراثت کو بیان کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں تقسیم وراثت کے موقع پر عورت کے وراثتی حقوق کی عملی صورت حال بد سے بدترین  ہے ۔


اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں کے درمیان وراثت کی تقسیم انہی اسباب کی بناء پر ہوتی رہیں جن کے ذریعے دور جاہلیت میں ہوتی تھی۔ اسلام نے آغاز میں لوگوں کے ان کی سابقہ حالت پر جوڑے رکھا پھر طریقہ جاہلیت کو منسوخ کرکے اپنا منصفانہ اور عادلانہ نظام اور مکمل اصول و ضوابط مقرر کیے ۔
اسی منصفانہ اور عادلانہ نظام میں عورت کو وراثت کے حقوق  دیئے گئے۔

خطبہ حج الوداع کے موقع پر بھی رسول اللہ نے بڑے واضح الفاظ میں عورت کی وراثت کے حقوق پہ بات کی ۔
قرآن پاک میں واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے" اور جو مال ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مر جائے تھوڑا ہو یا زیادہ مردوں کا بھی ہے اور عورتوں کے بھی حصے اللہ کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔"
پاکستان کی سینٹ میں وراثتی جائیداد میں عورت کے حقوق سے متعلق تنازعات مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کا ایک بل پاس کیا۔

کئی  حلقوں کا مطالبہ ہے کہ وراثتی جائیداد میں عورت کا برابر کا حق ہونا چاہیے پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سے قوانین بنائے گئے اور جائیداد کے حوالے سے گزشتہ برسوں میں  کچھ قوانین بنائے گئے ہیں۔جن میں اب  کچھ ترامیم کی گئی ہیں ۔
یہ بل کچھ عرصہ قبل وزارت انصاف و قانون کی قائمہ کمیٹی نے منظور کیا بلکہ محرک سینیٹر جاوید عباسی نے اس بل کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا۔

پاکستان میں وراثتی جائیداد میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے تناظر اور  مقدمات برسوں عدالتوں میں چلتے ہیں اس حوالے سے پہلے بھی قانون سازی ہوئی ہے اور موجودہ بل میں اسی قوانین میں ترمیم کی ہے
جس کے مطابق محتسب صرف اس بات کی پابند ہوں گے۔ کہ کسی بھی تنازعے کو ساٹھ دن میں طے کریں ورنہ یہ مقدمہ مقامی عدالت میں بھیجیں اور وہ اس مقدمے کا فیصلہ ساٹھ دن میں اس کا فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا ان کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ قانون میں مقدمے کا فیصلہ کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے جس کی وجہ سے خواتین کو اپنا حصہ لینے کے لیے کئی برس تک انتظار کرنا پڑتا ہے کیا ہے اور کہا ہے کہ عید اسپیشل ایسے مقدمات کے لئے مقرر کرے جیسا کہ نیب میں خصوصی جج ہے۔


لیکن کئی ناقدین اس بل کو خواتین کے لیے ناکافی قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق اس بل نے خواتین کے مساویانہ حصے پر کوئی بات نہیں کی۔ جاوید عباسی نے اس بات کی وضاحت کی کہ بل میں خواتین کے شرعی حصے کی بات کی گئی ہے، جو ملک کے لبرل حلقے کے خیال میں غیر مساویانہ ہے۔
جاوید عباسی اس شرعی حصے کی حمایت کرتے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمں اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔

  انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے وائس چیئرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ وراثتی جائیداد سے متعلق تنازعات کے فیصلے کے لیے وقت کا تعین مثبت بات ہے لیکن حکومت کو آگے بڑھ کر وراثت میں عورت کے برابر حصے کی بات بھی کرنی چاہیے،''میرے خیال میں وراثت میں عورت کے غیر مساوی حصے کا تصور مذہبی سے زیادہ پدرسری ہے اور اگر پارلیمنٹ میں مساویانہ حصے کا کوئی قانون آتا ہے تو سارے جاگیردار، چاہے وہ مذہبی ہوں یا لبرلز، وہ اس کی بھرپور مخالفت کریں گے لیکن اس قانون کا جدید جمہوری دور میں کوئی جواز نہیں ہے، جہاں مرد اور عورت کی برابری بہت ضروری ہے۔

‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں عورت پہلے ہی مظلوم ہے،''ضرورت تو اس امر کی ہے کہ عورت کو وراثتی جائیداد میں زیادہ حصہ ملے کیونکہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتی اور مالی طور پر خود کفیل بھی نہیں ہوتی۔ اگر زیادہ نہیں دے سکتے تو کم ازکم برابر کاحصہ تو دیں۔ اسے برابر کے حصے سے محروم کرنا اس کو مالی طور پر شدید نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

‘‘
معروف سیاست دان اور سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر بھی اسد بٹ کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ اس بل پر رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بل پر سینیٹ میں بھرپور بحث ہونی چاہیے اور  وراثتی جائیداد میں خواتین کا برابر کا حصہ ہونا چاہیے۔ خواتین کا غیر مساوی حصہ آئین اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی معاہدوں کے خلاف ہے۔

‘‘
سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی سابق سربراہ نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر تو خواتین کو وراثت میں مساویانہ حق ملنا چاہیے،''لیکن ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں، جہاں کے قوانین کو ماننا ہمارے لیے ضروری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ آدھا حصہ بھی خواتین کو نہیں ملتا۔ عورت کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے یا اسے غیر شادی شدہ رکھا جاتا ہے تاکہ جائیداد میں اس کو آدھا حصہ بھی نہ ملے۔

تو اس مسئلے پر قانون سازی سے پہلے بڑے پیمانے پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین ارکان اسمبلی اس غیر مساویانہ حصے کے حوالے سے اس لیے بات نہیں کرتی کیونکہ ان کے لاشعور میں کہیں رجعت پسند قوتوں کا خوف بیٹھا ہوا ہے،''اگر اس پر بات ہوگی تو رجعت پسند قوتوں کی طرف سے بھرپور مخالفت آئے گی تو شاید اس خوف سے خواتین ارکان اسمبلی نے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا۔

تاہم ملک کے لبرل حلقے اس غیر مساویانہ تقسیم کی مخالفت کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کے خلاف ہے۔‘‘
لیکن اس بحث میں پڑے بغیر ہم صرف عورت کو اسکا شرعی حق ہی دے دیں تو انسانی حقوق کی اس جنگ میں عورت کی بہت بڑی فتح ہو گی ۔ لیکن اکیسویں صدی میں بھی ہماری عورت اپنے بنیادی حقوق سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ اس جنگ مین آواز اٹھانے والے کا سر نہ صرف بے دردی سے کچل دیا جاتا ہے اور اسے اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ کوئی دوبارہ کبھی عورت کے حق میں آواز بھی نہ اٹھا سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :