
ماحولیات اور اسلامی تعلیمات
جمعہ 11 دسمبر 2015

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے نسل انسانی کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے ، دین اسلام جو ایک مکمل اور آخری دین ہے اس نے ان مسائل اور معاملات کے بارے میں اہم تعلیمات دی ہیں۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ انسان جسے خدا نے اس زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اوربقولِ اقبال زوالِ آدمِ خاکی تو خود خدا کا زیاں ہے ۔ خدا نے اپنی آخری وحی میں اور ختم المرسلینﷺ نے اپنی ارشادت میں اس بارے میں جو تعلیمات دی ہیں انہیں ہم فراموش کئے بیٹھے ہیں اور نہ اُن پر غور کرتے ہیں۔ منبر و محراب اور ہمارے مذہبی حلقوں نے بھی ماحولیات کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔جب ہم قرآن حکیم کی روشنی میں اس کائنات پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کائنات میں ایک ہی خدا کا بنایا ہوا قانون نافذ العمل ہے (۲۲/۲۱)۔ کوئی بھی قوانین ِ فطرت میں تبدیلی نہیں کرسکتا اور خدا کے اس بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی زمین فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ خدا کے قوانین کی اعلانیہ مخالفت اور سرکشی شرک کے مترادف ہے جس کا نتیجہ فساد فی الرض ہے۔ قرآن حکیم نے فساد اور اصلاح دو اصطلاحات بیان کی ہیں جو ایک دوسرے کی متضاد ہیں۔ فساد کا معنی درست حالت میں نہ ہونا، تناسب میں بگاڑ ہونا Distruction ,Disorder, Chaos, ہے۔ قرآن حکیم نے زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا ہے۔ زمین میں فساد پھیلانے سے مراد اس کے قدرتی حسن کو تباہ کرنا اور تناسب کو بگاڑنا بھی ہے۔ یہ انسانی بقا اور ماحولیات کے مسائل پر قابو پانے کے لیے بہترین لائحہ عمل ہے۔بہت سے لوگ اس بات کا شعور ہی نہیں رکھتے کہ کہ زمین میں فساد پھیلا رہے ہیں(۱۲/۲)۔ رب العزت نے کائنات کی تخلیق کرنے کے بعد اس کی حفاظت کا بھی نظام بھی بنایا جس طرف سورہ الرحمٰن کی ساتویں اور آٹھویں آیت میں اشارہ کیاہے۔ اگر زمین کے گرد کرہ ہوائی نہ ہوتا تو زمین کا درجہ حرارت منفی ۵۱ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا۔کرہ ہوئی ایک ہزار میل تک اوپر جاتا ہے۔ پہلی تہہ Trofosphere سطح زمین سے سات میل اوپر ہے۔ موسمیات کا خطہ Stratosphere دوسری تہہ اس میں ہوا گردش نہیں کرتی ہے اس لیے یہ گرم ہے۔ Mesophere تیسری تہہ ہے یہ بہت اہم ہے اس میں اوزون گیس ہے۔ جسے قرآن نے میزان سے تعبیر کیا ہے۔ یہ زیادہ توانائی کی لہروں کو آسمان سے زمین تک نہیں پہنچنے دیتی۔انسانی کاروائیوں سے گرین ہاوس گیسوں کے بے انتہا اخراج سے اس تہہ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ چوتھی تہہ Ionoshere اس سے اوپر خلا ہے جہاں درجہ حرارت C 1600 ہے۔دفاعی رکاوٹیں جو زمین تک مہلک قوتوں مثلاََ کا سمک ریز، گاما ریز، ایکس ریز، الٹرا وائیلٹ اور گرمی وغیرہ کی لہروں کو روک لیتی ہیں۔انہیں روکنے کے لیے اللہ تعالٰی نے پیمانے مقرر کیے ہیں جن کا قرآن میں بار بار ذکر آتا ہے۔ مثلاَ ہم نے سمائالدنیا کو روشن چراغوں سے مزین کررکھا ہے اور اسے سرکش قوتوں (Rebellious Forces) کو مار بھگانے والا بنایا ہے(۳۲/۲۱)۔ سورہ فصلت کی آیت ۱۲ میں ہے اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے مزین کیا اور محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں۔ سورہ ملک کی آیت تین اور چار میں اس کائنات کے نظام اور حفاظت کا کیا سائنسی اور عقلی انداز میں بیان کیا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جس نے سات (یا متعدد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہوگی ۔ سبحان اللہ ۔ اگر زمین پر دباؤ نہ ہوتا تو ہم یہاں عدم توازن کی وجہ سے رہ ہی نہ سکتے۔ صرف ایک منٹ دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو اس کے خلیات مرنا شروع ہوجاتے ہیں اور اگر یہ سلسلہ تین منٹ تک جاری رہے تو انتہائی شدید نقصان پہنچتا ہے جو موت تک جا پہنچتا ہے۔ زمین میں ماحولیا ت کے مسائل خود انسان کے اپنے پیدا کردہ ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں نوع انسانی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کارستانیوں سے خشکی و تری ہرجگہ ناہمواریاں اور خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں(۹/۳۰)۔سورہ حٰم السجدہ میں اسی موضوع کو دہرایا گیا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اگر کسی نے ایک پودا لگایا اس پودے کو انسان اور جانور جب تک کھاتے رہیں گے یا اس سے انسانوں کو فائدہ (سایہ کی صورت میں) ملتا رہے گا تو اس کا اجر اس شخص کو ملتا رہے گا۔رسول اکرمﷺ کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔ نبی آخر الزمان کی تعلیمات ہمیں اعتدال پسندی کی تلقین کرتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اعتدال اختیار کرو۔ گویا انسانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال مثلاً کھانے، پینے ، کمانے ، خرچ کرنے، صنعتی پیداوار اور اس کے استعمال، وغیرہ سب میں جس کا تعلق قدرتی وسائل سے آتا ہو اور آخر کار جو ماحول پر اثر انداز ہوتے ہوں، ان سب میں حد درجہ اعتدال سے کام لیں۔ امام ابویوسف کے نزدیک وہ شخص جو قدرتی ماحول کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتا، اسلامی شریعت کے نفاذ کے مناسب طریقہ کار کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ قرآن پر ایمان رکھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ زمین اور اس کی فضا کو آلودگی سے بچائیں اور اس میں اپنا کردار ادا کریں اور ہر اُس عمل سے اجتناب کریں جس سے زمین کے حسن اور ماحولیات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.