
مسئلہ کشمیر اور عالمی حمایت
ہفتہ 29 اکتوبر 2016

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
سلامتی کونسل کی قراردادیں اس پر موجود ہیں اور اب بھی یہ حل طلب مسئلہ کے طور پر فہرست میں شامل ہے۔
مسئلہ کشمیر کو عالمی حمایت نہ ملنے کی وجوہات اور ان کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہے۔ کشمیری کب تک شہادتیں دیتے رہیں گے ۔ کب دنیا ان کی آواز سنے گی اور ان کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنارہوگی۔دنیا کے اکثر ممالک اس مسئلہ کو کشمیری عوام کے حق خود آرادی کی بجائے پاک بھارت تنازعہ سمجھتے ہیں۔ دو طرفہ تنازعہ کی وجہ سے وہ اس میں مداخلت بھی نہیں کرتے کیونکہ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ کشمیر کو پاک بھارت تنازعہ بنانے کی خشت اول پاکستان کے وزیرخارجہ ظفراللہ خان کی جانب سے رکھی گئی جب انہوں نے 13 اگست 1948کو اقوام متحدہ کی کشمیر پر منظور کی گئی قرارداد میں تبدیلی کرائی اور ایک نئی قرارداد 5 جنوری 1949کو منظور کرائی جس سے کشمیر بین الاقوامی مسئلہ کی بجاے پاک بھارت تنازعہ بن گیا اور اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر Jammu Kashmir Question کی بجائے The India-Pakistan Question بن گیا۔ کوئی شخص بھی انٹر نیٹ پر سلامتی کونسل کی قراردوں کی فہرست ملاحظہ کرسکتا ہے اس میں The Palestine Question تو بار بار نظر آئے گا لیکن کشمیر کا نام کہیں دیکھائی نہیں دے گا۔ اسی طرح ریاست میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے مشن کا نام یو این مشن برائے کشمیر کی بجائے یو این ملٹری آبزرورز گروپ ان انڈیا اینڈ پاکستان UNMOGIP ہونے سے بھی مسئلہ کشمیر وہاں کے عوام کے حق خود آرادیت کی بجائے پاک بھارت تنازعہ کی صورت میں عالمی منظر پر نظر آیا۔ اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو خود بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا جبکہ فلسطینی وہاں اپنی بات خود کرتے ہیں۔ معائدہ شملہ میں یہی دہرایا گیا کہ پاکستان اور بھارت دونوں باہمی طور پر یہ مسئلہ حل کریں گے ۔ اس کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے موثر خارجہ پالیسی اختیار نہ کی گئی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بغیر کسی منصوبہ بندی کے عمل پیرا ہے ۔ریاست جموں کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ تو کیا جاتا ہے لیکن آزادکشمیر حکومت جسے اقوام متحدہ کی قرارداوں کے تحت رائے شماری میں اہم کرادرادا کرنا تھا وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ نوے سے زائد ممالک میں پاکستانی سفارت خانے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کے نام سے خانہ پری کرنے کے علاوہ ساراسال کشمیر یر کوئی کام نہیں کرتے۔ جن ممالک میں یہ سفارت خانے ہیں وہاں کی حکومت، منتخب نمائدوں ، سفارت کاروں، میڈیا ، حقوق انسانی کے اداروں اور عام عوام کومسئلہ کشمیر سے آگاہ کرنے کا کوئی عملی کام نہیں کرتے۔ بھارتی مظالم کے باوجود کشمیری عوام آزادی کی جدجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کا واحد مطالبہ صرف آزادی ہے۔ بھارت کے سابق وزیرخارجہ اور بی جے پی کے رہنما یشونت سنہا کی قیادت میں ایک وفد نے میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی کے ساتھ ملاقات کی اورکشمیری رہنماؤں نے وفد سے کہا ہے کہ وہ جاکر حکومت ہند کو بتا دیں کہ لوگ یہاں آزادی چاہتے ہیں جبکہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئر مین یاسین ملک نے ملنے سے انکار کردیا۔ وہ شدید علالت میں بھی کشمیری عوام کو درس حریت دے رہے ہیں۔ سید علی گیلانی نے واضح طور پر بھارتی وفد سے کہا ہے کہ کشمیرکو بھارت متنازعہ تسلیم کرے اور کشمیر سے فوجیں واپس بلالے تو وہ پاکستان سے کہیں گے کہ وہ آزاد کشمیر سے فوجی انخلا کا عمل شروع کرے۔
سید علی گیلانی کا یہ پالیسی بیان بہت اہم ہے اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس کی تائید کرے بلکہ اقوا م عالم کو بھی یہی پیغام دے کہ اگر بھارت کشمیر سے اپنی افواج نکالنے پر آمادہ ہوجائے تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت پاکستان کو پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ذمہ داری آزادکشمیر حکومت کے سپر د کرنی چاہیے۔ آزادکشمیر کے صدر مسعود خان ایک منجھے ہوئے سفارت کا ر ہیں اور وہ یہ ذمہ داری بطریق احن ادا کرسکتے ہیں۔ اس حقیقت کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ جب خود کشمیری عالمی سطح پر بات کرتے ہیں تو دنیا اس پر توجہ دیتی ہے۔ انہیں اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت کاروں سے مل کر اس مسئلہ کو پیش کرنا چاہیے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کے بیرونی دورے بھی لا حاصل ہیں اور ماضی میں بھی ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اس لئے ایسے دوروں کی بجائے آزادکشمیر اسمبلی کے اراکین اور صدر آزادکشمیر کو دنیا میں جا کر عالمی حمایت حاصل کرنی چاہیے۔ ایسے دوروں میں پاکستانی اور کشمیری کمیونیٹی سے ملاقاتوں اور تقریبات میں شرکت کی بجائے میزبان ملک کے حکومت، سیاسی رہنماؤں اور منتخب نمائندوں سے ملاقاتیں ہی دوروں کو موثربنا سکتی ہیں۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت اور گولہ باری کا جواب دینے کے لئے پاک فوج کو جوابی کارروائی کرنا پڑتی ہے ۔ اس دوطرفہ گولہ باری سے حد متارکہ کے دونوں جانب کی سول آبادی نشانہ بن رہی ہے۔ گولی بھارتی فوج کی طرف سے چلے یا پاکستانی فوج کی طرف سے، مارے دونوں طرف کشمیری جارہے ہیں۔ حد متارکہ پر تعینات اقوا م متحدہ کے فوجی مبصرین کو متحرک کیا جانا چاہیے تاکہ عالمی رائے عامہ اس گول باری کو روکنے میں اپنا کرادر ادا کرے۔ بھمبر آزادکشمیر کے سماہنی سیکٹر میں سکول میں میرے ہم جماعت اور دوست راجہ سکندر بھارتی جارحیت کا نشانہ بنے اور شہادت کے رتبہ پر فائیز ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں، دیگر شہید ہونے والوں اور سانحہ کوئیٹہ کے شہداء کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر اور برداشت کا حوصلہ عطا فرمائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.