سیکولر جناح
ہفتہ 24 دسمبر 2016
(جاری ہے)
قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری کی ایچ خورشید لکھتے ہیں کہ 1944 میں جب قائد اعظم کشمیر کے دورے پر گئے اور وہاں نیشنل کانفرس کے استقبالیہ میں شیخ عبداللہ کے سپاسنامہ کے جواب میں فرمایا "آپ نے استقبال میری ذات کا نہیں بلکہ اس لئے کیا ہے کہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر ہوں۔" بعد ازاں مسلم کانفرس کے استقبالیہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارا خدا ایک، رسول ایک، کتاب ایک اور دین ایک ہے۔"ان کے دورہ کشمیر کے دوران سناتن دھرم سبھا کے رہنماء پنڈت شیونرائن نے اپنی طرف سے قائد اعظم پر چوٹ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگرچہ میں کشمیر میں اقلیتوں کا لیڈر ہوں مگر کشمیر کا جناح نہیں ہوں۔ قائد اعظم نے مسکراتے ہوئے برجستہ کہا ” پھر تو تم بد قسمت ہوئے نا، میں ٓپ کے مقدر کی بہتری کے لئے دعا گو ہوں“۔
17 ستمبر 1944ء کو گاندھی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایاکہ " قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں "۔10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی" ۔25 جنوری 1948 ء کو عید میلاد النبی ﷺ ک کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ " آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"۔اپنی زندگی کے آخری سرکاری تقریب میں انہوں نے یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ صرف ایسا نظام ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"۔ یہ ہیں اس قائد کے نظریات جنہیں کچھ حلقے سیکولر بنانے پر بضد ہیں۔ اگر ان نظریات کا حامل شخص سیکولر ہوسکتا ہے تو پھر ان حلقوں کو یہ نظریات اپنانے میں کیا مسئلہ ہے ۔محض مغربی لباس پہننے سے کوئی سیکولرنہیں ہوجاتا ۔جو حلقے تاریخ مسخ کرتے ہوئے قائد اعظم کو ایک سیکولر شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیا وہ کوئی ایک ثبوت بھی پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں قائد اعظم نے کہا ہو کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.