ڈاکٹروں کو طبی اخلاقیات بھی پڑھائیں

منگل 28 مئی 2019

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

”ہم زندگی دے سکتے ہیں تو زندگی چھین بھی سکتے ہیں“ ینگ ڈاکٹروں کے نمائندہ نے جب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ایسے الفاظ کہے تو میں لرز گیا۔ یااللہ ایک مسیحا کی زبان سے یہ کیا سن رہے ہیں۔ پاکستان میں چند سالوں سے ینگ ڈاکٹروں کی جانب سے اپنے حقوق کے لئے ہڑتالوں کا نہ صرف سلسلہ جاری ہے بلکہ ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ الاحفیظ و الامان۔

دنیا میں کہیں بھی شعبہ صحت اور لازمی سروس کے ملازمین ہڑتال پر نہیں جاتے۔ ینگ ڈاکٹر پہلے حصول ملازمت کے لئے تگ و دو کرتے ہیں لیکن جب ملازمت مل جاتی یے تو پھر ہڑتالی کلچر اپنا لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہیں شرائط ملازمت منظور نہیں تو انہوں نے یہ ملازمت کیوں اختیار کی تھی؟ اور اگر کوئی تنخواہ، مراعات اور سہولتوں سے مطمن نہیں تو پھر ملازمت سے مستعفی ہوجائے ۔

(جاری ہے)

پاکستان میں ینگ ڈاکٹروں کو دیگر ملازمتوں کی نسبت پہلے ہی بہت زیادہ مراعات حاصل ہیں۔ ڈاکٹر بننے کے لئے ایف ایس سی کے بعد پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ بہت سے دیگر شعبوں میں بھی ایف ایس سی کے بعد کم بیش اتنا ہی وقت صرف ہوتا ہے جن میں انجنیرنگ، زراعت، فارمیسی، ویٹرینری اور بنیادی سائنس کے شعبے شامل ہیں۔ ان شعبہ جات کے طلبہ بھی ڈاکٹروں کی طرح پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے گریڈ سترہ کی ملازمت حاصل کرتے ہیں اور ان کی مراعات اور سہولتیں ڈاکٹروں کی نسبت کم ہونے کے باوجود وہ تو ہڑتالیں نہیں کرتے ۔

ینگ ڈاکٹر تو ایک طرف رہے جو ڈاکٹر، پروفیسریا پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں ان کے رویے بھی قابل افسوس ہیں۔ وہ سرکاری ہسپتالوں سے تنخواہیں اور مراعات سے مستفید ہونا تو اپنا اولین حق سمجھتے ہیں مگر مریضوں کو چیک کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ نہایت افسوس و گریہ کا مقام ہے جو پیشہ فلاح انسانیت کے لیے مختص ہے، اسی پیشے کے لوگ جب ایسے رویے اپناتے ہیں تو انسانیت کو بہت ملال ہوتا ہے۔

مریض دھکے کھا رہے ہیں اور لوگ موت و حیات کی کشمش میں ہوں لیکن ہمارے ڈاکٹر جب ایسے رویے اختیار کرتے ہیں کہاں ہوتا ان کا وہ عہد کہ ہم دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے۔ایک ڈاکٹر کا مریض کے ساتھ ایک شفیق مسیحا کا رویہ ہونا چاہیے نہ کہ حاکم اور محکوم کا لیکن افسوس ہے کہ ہمارے ڈاکٹروں میں طبی اخلاقیات کا نہایت فقدان ہے۔
اس صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستان میں ایم بی بی ایس کے نصاب میں میڈکل ایتھکس ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر نہیں پڑھایا جاتا اور اگر کہیں پڑھایا بھی جاتا ہے تو صرف ایک باب کے طور پرسرسری سا ذکر کردیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں طبی اخلاقیات باقاعدہ ایک مضمون کی صورت میں تعلیم کا لازمی حصہ ہوتا ہے، پاکستان میں بھی میڈیکل کی تعلیم میں ایک سبجیکٹ کی حیثیت سے پڑھانا چاہیے۔طب ایک مقدس پیشہ ہے او ر ڈاکٹر تعلیم مکمل کرتے وقت عہد کرتے ہیں کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے۔ طبی اخلاقیات نہ پڑھانے کے سبب ڈاکٹر کا مریض کے ساتھ رویہ ایک مسیحا کی بجائے کسی حاکم کی طرح ہوتا ہے۔

یورپ میں طبی اخلاقیات کا معیار بہت بلند ہے اور مریض کی جانب سے ڈاکٹر کی شکایات پر سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔ سنگین معاملہ میں تو ڈاکٹر کا لائسنس تک منسوخ کر دیا جاتا ہے۔وہاں جب مریض معائینہ اور تشخیص کے لئے ہیلتھ سینٹر، کلینک یا ہسپتال میں جاتا ہے تو ڈاکٹر خود اپنے کمرے سے باہر آکرمریض کا استقبال کرتا ہے اور اسے اپنے ساتھ معائینہ کے لیے لئے جاتا ہے۔

پاکستان میں کئی ڈاکٹر تو پیشہ وارانہ اصولوں سے بھی نابلد ہیں اور آئے روز میڈیا میں خبریں گردش کرتی ہیں۔ حال ہی میں لاڑکانہ میں مبینہ طور پر ڈاکٹر مظفر گھانگھڑو نے پانچ سو انسانوں کو ایڈز کے مہلک مرض میں مبتلا کردیا ہے اور اس سے بڑا المیہ یہ کہ دیگر ڈاکٹروں کی جانب سے مذکورہ ڈاکٹر کی رہائی کے لئے مظاہرہ اور مطالبہ کیا گیا ہے۔ چشتیاں کے ڈاکٹر نوید کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں ایک خاتون کی جراحی کی جارہی ہے۔

مذکور ڈاکٹر آپریشن روم میں چائے پی رہے ہیں اور ماتحت عملہ انتہائی لغو گفتگو کرتے ہوئے جراحی کررہے ہیں۔ مجاز اتھارٹی کو طبی اور اخلاقی اصولوں کے تحت مذکورہ ڈاکٹر اور اس کے عملہ سے جواب دہی کرنی چاہیے کہ آپریشن تھیٹر میں ہائی جین کے کیا ضوابط ہیں؟وہاں چائے پینا، موبائل سے ویڈیو بنانا، سرجری کے لئے ضروری لباس نہ پہننا، ماتحت عملہ کا سرجری کرنا ، غیر متعلقہ افراد کی موجودگی اور کسی مریضہ کی ویڈیو بننے دینے کی کیسے اجازت ہے۔

اگر یہ واقعہ کسی مہذب ملک ہوتا تو نہ صرف ڈاکٹر کا لائسنس ضبط ہوجاتا بلکہ سخت سزا بھی ملتی۔ دیکھتے ہیں اس معاملہ میں کوئی جزا و سزا بھی ہوتی ہے یا مٹی پاؤ پالیسی پر عمل ہوتا ہے۔
ایک اور اہم معاملہ سرکاری ملازمت والے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کا ہے۔ ایمان داری کا تقاضا ہے کہ سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔

پرائیوٹ پریکٹس کرنے والے آٹھ گھنٹے کی سرکاری ڈیوٹی پوری طرح سے ادا نہیں کرتے اور نہ وہاں مریضوں کو اس توجہ سے دیکھتے ہیں جیسے شام کو اپنے کلینک پر دیکھتے ہیں اور ویسے بھی جو شخص پورا دن کام کرے اسے اپنے آرام، گھریلو مصروفیات اور ذاتی امور کے بعد وقت کہاں بچتا ہے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے تشخیصی لیبارٹریوں سے کمیشن کے عوض مریض کے غیر ضروری ٹیسٹ کروانا اور دوا ساز کمپنیوں سے تحائف اور مال ملنے کے لالچ میں غیر ضروری ادویات تجویز کرنا حرام کی کمائی کے زمرہ میں آتی ہے۔

کئی حاملہ خواتین کو آپریشن تجویز کیا جاتا ہے حالانکہ ان کے ہاں قدرتی زچگی ممکن ہوتی ہے۔ ناجائیز کمائی تو جھوٹے میڈیکل سرٹیفکیٹ دینا اور ایسے کام کی فیس لینا جو پورا نہیں کیا۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینیل کونسل کو ان امور کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ ایم بی بی ایس کے نصاب میں طبی اخلاقیات کے حوالے سے تبدیلیاں تجویز کرنی چاہیں جو اس شعبہ کہ اہمیت اور اسلامی افکار کی روشنی میں ہوں۔ کونسل کو اپنے فرائض اور قوانین کے نفاذ میں عملی اقدامات کرنے چاہیں۔ پاکستان میں مریضوں کی شکایات پر سخت ایکشن لیتے ہوئے داد رسی اور سزاوجزا کا نظام عملی طور نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :