خواب یا تقلید فیصلہ آپ کا

پیر 23 نومبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

انسان اس دنیا میں جب سے آیا ہے۔ بس اپنے تکمیل کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ کبھی دولت کی ہوس، کبھی شہرت کا پیاس ، کہی پر رعب کی تلاش جاری رہتا ہے۔ زندگی میں یہ سب چلتا رہتا ہے۔ کوئی غریب ہو ۔ تو وہ امیروں کی زندگی کو حسرت سے دیکھتا ہے۔ کوئی بے تعلیم ہو ۔ تو وہ تعلیم یافتہ لوگوں کی زندگی کا خواہشمند ہوتا ہے۔ یعنی جس کے پاس جس چیز کی کمی ہو۔

وہ اسے پورا کرنے کے لیے ترستا ہے۔ لیکن ایک بات ایسی ہے۔ ایک قانون ایسا ہے۔ اور ایک راز ایسا ہے۔ جس سے بہت کم لوگ باخبر ہے۔ بہت کم ہی لوگ اسے اپناتے ہیں۔ اور بہت کم ہی لوگ وہ دوسروں کو بتاتے ہیں،،،،       
وہ راز وہ بات اور وہ قانون ہے۔ "خواب دیکھنا"  خواب دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ خواب ہوتے ہیں جو ہم سپنوں میں سوچتے ہیں۔

(جاری ہے)

نیند میں بند آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

یا کسی سچویشن میں ہم جسے چاہتے ہیں۔ یہ وہ خواب ہوتے ہیں۔ جو بہت جلد ہمارے ذہنوں اور یادوں سے نکل جاتے ہیں،،،     
لیکن کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں۔ جو کھلے آنکھوں سے اور ہوش و حواس میں دیکھے جاتے ہیں۔ یہ وہ خواب ہوتے ہیں۔ جس کو دل و دماغ سے نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ وہ خواب ہوتے ہیں۔ جو سونے نہیں دیتے ۔ یہ وہ خواب ہوتے ہیں۔ جو خود کو پورا ہونے تک انسان کو چین سے جینے اور سونے نہیں دیتا۔

۔۔
معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام میں یہ سب کچھ نہیں سکھایا جاتا۔ ہمارے سکول میں کالج اور یونیورسٹی میں فزکس ، کیمسٹری،  میھتس اور ڈریل وغیرہ کا پریڈ تو ہوتا ہے۔ اور ہفتے میں دو دن ڈریل کا پیریڈ لازمی ہوتا ہے۔ جو جسمانی صحت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن کیا اس میں  کوئی پیریڈ یا وقت یا دن ایسا ہوتا ہے جس میں بچوں کو خواب دیکھنا،  جستجو،  اور موٹیوئیشن کے بارے میں بتایا جاتا ہو۔

جس میں اس کے آنے والی زندگی میں کونسا شعبہ اس کے لئے بہتر ہوگا سیکھایا جاتا ہوں۔۔۔۔
بچہ جب میٹرک سے فارغ ہوتا ہے۔ تو وہ ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ کسی شعبے میں جائے۔ اس کے  اپنے خواب، گولز کچھ نہیں ہوتے ۔ بس ایک ٹرینڈ اور ایک دیکھا دیکھی تقلید ہوتا ہے۔ کہ فلاں نے یہ کیا اج اتنا کما رہا ہے۔ فلاں نے ایم بی بی ایس کیا اج کروڑوں میں کھیل رہا ہے۔

اس کو دیکھو انجینئرنگ وغیرہ کیا اب اپنے گاڑیوں اور بنگلوں کا مالک ہے۔ اور یہ اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ ایک ان دیکھے خواب، ایک ان پلان گول اس کے سامنے ہوتا ہے۔ دوسرے کے خواب کے پیچھے پاگل ہو جاتا ہے۔ اور ہم گلہ کرتے ہیں کہ بچے 1100 میں 1080 نمبر لے رہے ہیں اور کوئی عبدالقدیر پیدا نہیں ہو رہا۔ جب کوئی خواب نہیں ہوگا جستجو کوئی خواہش اور برنیگ ڈیزیر(burning desire )نہیں ہوگا   ۔

تو کیوں ہوگا کوئی البیرونی پیدا،،،،جب وہ صرف ریس میں دوڑائے گا تو صرف گھوڑا ہی پیدا ہوگا   ۔ کوئی مشین اور اے ٹی ایم ہی پیدا ہوگا ۔ جس کو نہ کوئی احساس ہوگا نہ خلق خدا کا غم اور درد ،صرف پیسہ اور بنگلہ اس کا منزل ہوگا۔۔۔
میرا اپنے ملک کے تعلیمی اداروں سے اور خاص کر والدین سے درخواست ہے کہ اگر اپنے بچوں کو کچھ بنانا ہے۔ اس کو کامیاب دیکھنا ہے۔

اور ان سے خلق خدا کو فائدہ پہنچانا ہے۔ تو انہیں خواب دیکھنا سیکھاو۔ انہیں خوابوں کے پیچھے چلنے والا بناو ۔ نہ کے لوگوں اور سکوپ کے پیچھے۔۔۔
میرے دیس کے نا امید نوجوانوں خواب دیکھنا شروع کرو۔ خواب دیکھو۔ پلان بناو اور گمنام ہوکے اس کو پورا کرنے میں لگ جاؤ۔ کوئی بھی طاقت اپ کو اپکے خواب کو حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تمھارے پاس تمھارا اپنا کوئی خواب اور گول ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :