ہائے زندگی

پیر 22 نومبر 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

زندگی گزارنے کا فن انسان سیکھتے سیکھتے بوڑھا ہو جاتا ہے۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے سبق کو یاد رکھنے  والا بابا جی جب شام کو اپنے نواسوں اور بیٹے، بیٹیوں کے ساتھ یہ تجربہ یہ احساس یہ فن شیئر کرنے لگتا ہےتو بچے بڑے سب آٹھ کے چلے جاتے ہیں۔ سب کہتے ہیں بوڑھا سھٹیا گیا ہے۔ دماغی حالت اب بابا جی کا ٹھیک نہیں جو بھی منہ میں آتا ہے بولتا چلا جاتا ہے۔

نئے داور نئے زمانے کے بارے میں اسے  کیا پتہ؟ ،  ان کے زمانے کی بات اور تھی ،  بچے بھول جاتے ہیں کہ آج ہم جو سکھ سہہ رہے ہیں،  جس زندگی میں ہم موج مستی کر رہے ہیں ،یہ کن قربانیوں،  کن تکلیف دہ لمحوں، تلخ لہجوں کو برداشت کرنے کا بدلہ ہے۔۔
 روز صبح اٹھ کے ہم آنے والے دنوں میں بیان ہونے والے تجربے سہتے ہیں ، ہر روز ایک نیا چلینج نیا مقابلہ،  نیا غم ، یا خوشی ہماری منتظر ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارا ہر ایک کام ہمارا ہر ایک عمل یا ردعمل ہمیں زندگی کے گر سکھا کے گزرتا رہتا ہے،  روز ہم مرتے ہیں روز ہم جیتے ہیں،  کبھی زندگی دکھ سے بھر جاتی ہے۔ ہر طرف اندھیرا،  ہر طرف ناامیدی غم کے بادل ہم پر چھا جاتے ہیں،یہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ چاروں طرف ناقابل برداشت دکھ ہمارے منتظر ہوتے ہیں ، ہم ایسے ایسے معاملات میں پھنس جاتے ہیں جن سے نکلنا اور  اس کے بعد جینا ہم کو ناممکن لگنے لگتا ہے۔

اور یہی زندگی کبھی کبھی ہمارا دامن خوشیوں سے بھرنے لگتی ہے۔ہمارا ہر کام آسان ہو جاتا ہے۔ ہمیں ہر در کھلا ملنے لگتا ہے۔ یہ خوشیاں یہ اسانیاں یہ کھلے دروازے ہم سے ہمارا غم ہمارا تکلیف،  ہماری مشکل بھولا دیتا ہے۔ یہ زندگی ہے ۔ جس کا سفر روز جاری رہتا ہے۔ ۔۔
 یہ دن گزرتے ہیں، چاہیے خوشی دے یا غم ، یہ اپنی رفتار کم نہیں کرتے ، اسے نہ غم سے کوئی غرض ہے نہ خوشی سے کوئی کام ، روز امتحان دیتی ہے،  روز امتحان لیتی ہے،  ہر روز ایک نئی امید ایک نئی چلینج دیتی ہے، تو اگلے روز اگلے لمحے ناامیدی کی گہری کھائی دیکھاتی ہے،
 آج کل کے مہنگائی والے داور میں، بہت سے لوگوں کو دل ہی دل میں اور بظاہر روتے دیکھا ہے،  ان کے ساتھ دل و دماغ دہل جاتا ہے۔

دماغ میں ایک دم اس دنیا کی آخری ایام کا خیال اجاتا ہےکہ اب بہت مشکل ہے کہ دنیا باقی رہے ۔بہت مشکل ہے کہ دنیا کا کارواں اب رواں دواں ہوں۔ مہنگائی کیوں آئی،  کیسی آئی، یہ تو معاشیات دانوں کو پتہ ہوگی ۔ نہ میں اس کا ذمہ دار  حکومت کو ٹھہرا سکتا ہوں نہ تاجر برادری کو ، میرے پاس اتنا علم نہیں،  نہ ہی میرا کام میری تحریر کا مقصد کسی پر تنقید کرنا یا کسی کا ساتھ دینا مقصود ہے۔

میرا پوائنٹ صرف یہ ہے میرا درخواست صرف اتنا ہے میرا علم صرف یہ کہتا ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری سے بہت سے جوان دلبردشتہ ہے۔ ان کا دماغی صحت روز بروز گر رہا ہے،  ٹینشن روز کا معمول بن چکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتیں،  جس سے زندگی رواں دواں ہوتی ہے کو حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ لیکن نتیجہ وہی ہے جو اکنامسٹ بیان کرتے ہیں۔ ضروریات زیادہ اور ان کو پورا کرنے والے ذرائع محدود ہیں،  اسلئے روز قربانی ہوتی ہے،  ایک خواہش کو پورا کرنے کے لیے دوسری خواہش کی قربانی دینا جاری ہے۔

پشتو کا ایک شعر یا فقرہ ہے کہ
جوندہ درتہ وجڑم کہ وخندم
ما نہ خو دی لارہ ھیرا کڑی دا
مطلب اس کا یہ ہے کہ اے زندگی میں ہنسو یا رولو  آپ کی  مشکلات پر ، تم نے تو مجھ سے میرا راستہ ہی بھولا دیا ہے،
 لوگ زندگی سے ناامید  خوشیوں،  آسائش کے بھوکے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اکثر ہم ان لوگوں سے الجھ جاتے ہیں ان سے بحث کرتے ہیں، ان کو کم علم اور ناخبر ٹھہراتے ہیں،  ان پر ناشکرے کا سٹامپ چسپاں کرتے ہیں،  کیا یہی ہمارا کام رہ گیا ہے؟ ،  کیا اس سے ہمیں کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔


تو کیوں نہ ہمارا کام ناامید لوگوں کی مدد ہو؟ ،  ہمیں کوشش کرنی چاہئیں کہ لوگوں کو خاص کر ٹین ایجز کو زندگی کے گر سکھائے، ان کو موٹیویٹ کریں،  صبر کرنا گزارہ کرنا، ہر حال میں خوش اور اللہ کا شکرگزار رہنا سکھائیں ، انسان سے امید رکھنے کے بجائے اللہ سے رابطہ کرنا سکھائیں، ان کو بابا جی کے پاس بیٹھائے،  ان کو انبیاء کرام کے دکھ درد بتائیں،  ان کو یوسف علیہ السلام کی آزمائش اور ان سے نکلنے کے لئے ان کا صبر بتائیں،  ہم ان کو آدم سمتھ اور رابنز کا معاشی نظریہ بتانے کے ساتھ ساتھ ہمارے اکابرین کا صبر و شکر اور کوشش سمجھائیں۔


ہمیں ہر کسی کا مددگار بننا ہے۔ کسی کی مالی مدد نہیں کر سکتے،  تو خوشگوار موڈ اور خوشحال چہرے کے ساتھ تو مل سکتے ہیں۔ ہنسی مذاق کر کے کسی کا دل بہلا سکتے ہیں۔ جو ہمارے اختیار میں ہو وہ مدد کر سکتے ہیں۔ حالات سخت ہے لیکن ہمارا حوصلہ ہمارا عزم بھی بہت بلند ہے،  ہم سب مل کے اتفاق سے انشاءاللہ ان سخت حالات کو سنہرے داور میں تبدیل کرینگے۔ ناامیدی گناہ ہے،  کوئی کریں نہ کریں ہمیں اپنا کام کرنا ہے لوگوں کی زندگیوں میں اسانیاں لانی ہے۔ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :