خوابوں کے سوداگر

پیر 6 دسمبر 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

بڑے خوابوں کے چھوٹے سوداگر ان خوابوں کو  حاصل کرنے کے لئے بڑی گمنامیاں برداشت کرتے ہیں۔ اونچے ٹیلوں پر چڑھنے کے لئے بلند حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاؤں میں جوتے ہو نہ ہو، پانی ساتھ لے جانے کے لئے برتن میسر ہو یا نہ ہو لیکن بلندیوں کو چھونے والے چلتے رہتے ہیں۔ پیاس ، تکلیف،  ناکامی کا ڈر ، پاؤں میں چھالے پھر کوئی حیثیت نہیں رکھتی،  بڑے خوابوں والے پھر پاؤں کے  بھی محتاج نہیں ہوتے ، رینگ کر چلتے ہیں،  لڑکھڑا کر چلتے ہیں لیکن منزل تک خود کو پہنچا کے ہی دم لیتے ہیں۔

۔۔۔
ہمارے دل میں ہمارے عمر اور سوچ کے پختگی کے ساتھ ساتھ خواب بھی بڑھتے رہتے ہیں۔ جیسے اندھیرے کمرے میں دیا جلانے سے روشنی پیدا ہوتی ہے،  اسطرح دل میں خواب پیدا ہونے سے دل زندہ ہوتا ہے، جسم کو موٹیوئیشن ملنا شروع ہو جاتی ہے،  دل میں اگ لگ جاتی ہے خوابوں کو پورا کرنے کا ، کامیاب لوگ یہ آگ بجھنے نہیں دیتے ، جبکہ ہم جیسے ناشکرے اور ناکام  مسافر ایک خواب کو پال پال کے بڑا کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن معمولی سی تکلیف،  معمولی سی ناممکنات،  اور معمولی تھکان سے ہم اسے قربان کر دیتے ہیں۔اور اس سے کم سے بھی خود کو راضی اور مطمئن کر دیتے ہیں،  پھر کوشش اور اگ بھج جاتی ہے،  اس کو رب کی رضا سمجھ کے،  خود کو اور تکلیفوں، رکاوٹوں سے محفوظ کر کے بیٹھ جاتے،  جبکہ میرا رب کبھی بھی مانگے سے کم نہیں دیتا بلکہ زیادہ سے نوازتا ہے ، بس اسے اس تڑپ کا انتظار ہوتا ہے،  جو بندے کے دل میں پیدا ہوتا ہے  وہ تڑپ جو دل کو اپنے رب کے ذکر سے بھر دیتا ہے ۔

وہ تڑپ جو بندے کو سونے نہیں دیتا ، وہ تڑپ جو بندے کا رابطہ سیدھا اپنے رب سے کرا دیتا ہے،  وہ تڑپ جو رات کے آخری پہر انسوں کی شکل میں نکلنے لگتا ہے،  وہ تڑپ وہ یقین جو  انسان کو تنہائی میں بھی تنہا اور محفل میں کھونے نہیں دیتا ۔۔۔۔
خوابوں کو دیکھنے والے راہ میں انے والے ہر رکاوٹ، ہر سپیڈ بریکر ، گمنامی،  بدنامی، بے عزتی، لوگوں کی تحقیر  بھری نظریں ، سفر کو روکھنے والی باتیں،  پی کے گزر جاتے ہیں۔

جو خوابوں کے سوداگر ہوتے ہیں وہ تاجر نہیں ہوتے ، وہ تجارت نہیں کرتے ،اپنے خوابوں کے ساتھ، اپنے منزل کے ساتھ،  وہ یہ نہیں سوچتے کہ میں جو خواب دیکھ رہا ہوں، میرا جو خواب ہے ، میرا جو سفر اور منزل ہے وہ میرے وسائل کے مطابق ہے یا نہیں، جو دنیا کو فتح کرنے کے لئےنکلتے ہیں ، وہ زمین کے ٹکڑوں پر صبر نہیں کرتے ، بلکہ اسے  ساری دنیا کو فتح کرنے کا تڑپ ہوتا ہے،  وہ صرف خواب دیکھتے ہیں اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے لگ جاتے ہیں۔

، گمنام ہو جاتے ہیں، بہرے ہو جاتے ہیں، اپنے رب کے تابعدار بن جاتے ہیں،  اپنے رب سے باتیں کرتے ہیں،  ان سے تعلق بناتے ہیں ۔ اور میرا رب ان کے وسائل،  ان کے اسباب، ان کا منزل، ان کا سفر آسان کر دیتا ہے۔ وہ میرا رب تڑپ دیکھتا، جنون دیکھتا ہے۔ اور   صرف ایک کن سے ان کے خوابوں کو ان کے جھولی میں ڈال دیتا ہے،  اور کہتا ہے  مانگ میرے بندے،  اپنی تڑپ کو بڑھا ، اپنے خواب اونچے کر ، میں دونگا ، اسباب میں پیدا کرونگا۔

لیکن تب جب تمھاری تڑپ  اسمانوں کو چھویگی ، جب تیرا یقین صرف یہ ہو کہ میں خواب دیکھونگا،  اس کو پورا کرنے کی کوشش کرونگا، یہاں تک میرا کام اس کے بعد کا کام اس ذات کے ہاتھ میں ہے،  جو وسائل کا محتاج نہیں،  جس کے قبضہ قدرت میں دنیا و اسمانوں کا اختیار ہے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، کہ اج کا جنریشن خواب دیکھنا چھوڑ چکی ہے،  وہ صرف تقلید، اور دیکھا دیکھی پر اتر آئی ہے ۔

وہ کامیاب لوگوں کے خواب تلاش نہیں کرتے ، وہ کامیاب لوگوں کی تکلیفیں، گمنامیاں،  رسوائیاں،  نہیں کھوجتے،  وہ صرف کامیاب لوگوں کی منزل کو دیکھتے ہیں،  شاٹ کٹ تلاش کرتے ہیں اس منزل کو پانے کے لئے،  آہیں بھرتے ہیں،  حسد کرتے ہیں نقل کرتے ہیں اور ناکام ہو کر ناامید ہو جاتے ہیں،  وہ اونچائی پر کھڑے شخص کو دیکھتے ہیں، اس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

لیکن اس جنون اور تڑپ سے بے خبر ہوکر  جب چلنا شروع کرتے ہیں تو پہلے ہی سیڑھی پر گر جاتے ہیں، پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتے اور وہاں پر بیٹھے بیٹھے ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔۔۔۔
آگے بڑھنے کے لیے، اونچائی پر پہنچنے کے لئے،  منزل کو پانے کے لیے، خواب کو حاصل کرنے کے لئے کچھ درد ، کچھ کانٹے،  کچھ باتیں برداشت کرنی ہوتی ہے۔ اللہ کبھی کسی کی محنت اور تڑپ کو ناکام نہیں کرتا،  اللہ ہمیشہ اپنے بندے کو اس کی کوشش اور امید سے زیادہ دیتا ہے لیکن اس کی تڑپ اور یقین کے انتظار میں ہوتا ہے۔ اللہ ہمارے دل میں وہ  تڑپ وہ شوق پیدا کرئے جو بندے کو اپنے رب کا شکر گزار اور تابعدار بنا دیتا ہے۔۔۔آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :