الفاظ کے وار نرالے

منگل 9 نومبر 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

جاہلوں کی جہالت اور تنقید پرستوں کی تنقید برداشت کرنا بڑے لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ ساری دنیا کو قائل کرنا،  ان کو نصیحت کرنا موٹیویٹ کرنا بہت آسان ہے لیکن جاہل سے ہمکلام ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ زندگی میں تنقید ان پر ہوتا ہے جو تعریف کے،  تحسین کے ، داد کے قابل ہوتے ہیں۔
کبھی بھی کسی عام سے درخت کو ہم نے کسی کو پتھر مار کے نہیں دیکھا ہوگا لیکن پھلدار درخت پر ہر وقت پتھر برستے ہیں،  ہر کوئی اسے پتھر مارتا ہے لیکن یہ درخت کبھی پھل دینا بند نہیں کرتا بلکہ اگلے دفعہ اور زیادہ پھل دینے کی کوشش کرتا ہے۔

۔۔
ہم اچھے کام کرنے لگتے ہیں ہمیں جنون چڑھا ہوتا ہے دنیا کو بدلنے کا دنیا میں تبدیلی لانے کا ، لوگوں کو اسانیاں پہنچانے کا، لیکن ہماری کوشش ہماری محنت اور ہماری عبادت صرف ایک جاہل کے تنقید تک ہوتا ہے،  ہم کبھی بھی تنقید کو برداشت نہیں کرسکتے ہم چاقو کے وار اور  بندوق کی گولی کو برداشت کرسکتے ہیں لیکن الفاظ کے وار اور لہجوں کی کڑواہٹ کو سہہ نہیں سکتے،  ہم ایک پاگل اور کم علم شخص کی وجہ سے بہت ہی انمول اور پیارے لوگوں کو بھول جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

۔
ہم اپنے اچھے کاموں اور  لوگوں کے ساتھ اچھے روئے سے پیش آنے کا بدلہ چاہتے ہیں۔ ہم زبان سے نہیں بولتے لیکن ہماری دلی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی میرا تعریف کرے کوئی میرے بارے میں اچھے الفاظ بولے۔ کسی اچھے انسان کا یہ امید رکھنا ناجائز نہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہے جو تعریف کریں، بلکہ ہم  تنقید پرستوں کے زمانے میں جے رہے ہیں۔

ہمارے کام کا ہمارے کوشش کا بدلہ ہمیں تنقید کے صورت میں ملتا ہے۔۔۔
بہت ہی انمول لوگ اپ کو تنقید برائے اصلاح والے ملے گے ۔ باقیوں کا کام ہوتا ہے اچھے کاموں کو روکنا ، لوگوں کی زندگیوں کو عذاب بنانا ، خود بھی نہ کرنا اور دوسرے کا راستہ بھی ہر ممکن حد تک روکنا۔ اس سے چاہے اسکا فائدہ ہو نا ہو لیکن دوسروں کے نقصان کو وہ خوش آمدید کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوتے ہیں،  یہ لوگ نہ تو خود کو تبدیل کرتے ہیں نا آپ کو کرنے دیتے ہیں۔

۔۔
تنقید کو برداشت کرنے والے یا تو مولانا رومی بنتا ہے یا شمس تبریز جیسا بڑا صوفی لیکن تنقید کرنے والا یا تو ابوجہل کی طرح مارا جاتا ہے یا فرعون کی طرح غرق،  لیکن یہ اپنے عادت سے مجبور ہوتا ہے۔ وہ تباہی و بربادی کی طرف خود بھاگتا ہے ۔ کسی اچھے کام کو روکنے سے اسے دلی تسکین ملتا ہے۔۔۔
جب آپ پر تنقید کے تیر برسانا شروع ہوجائے،  جب لوگ اپ کے سامنے آپ کے کردار پر ، اپ کے اعمال پر ، اپ کے کوشش پر انگلیاں اٹھانے لگے تو سمجھ جاؤ کہ تم صحیح سمت جا رہے ہوں۔

اب ایک مقابلہ شروع ہوگا ، اپ کے اور تنقید پرستوں کے درمیان،  اگر الفاظ کا وار برداشت کر کے تم اگے بڑھے، کسی کی تنقید کا جواب دینا اپ کے لیے بے معنی ہونے لگا ، تو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اس کا  شکر ادا کرو کہ اب تم انمول بننے والے ہوں۔۔
ان لوگوں سے مقابلے میں جیت تبھی ممکن ہے۔ جب ان کے الفاظ ان کے کردار تمھارے سامنے بے معنی ہو جائے ، وہ تم سے جھگڑا کرنا چاہیے اور تم جواب میں بولے  .إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَماً.. ان کو جواب دینے ان کے تدبیروں کے لیے آپ کے پاس وقت ہو لیکن آپ ان  پر وقت خرچ کرنا فضول سمجھے ، تو ترقی کرنے اور انمول بننے سے کوئی تمھیں نہیں روک سکتا ،
 اپنی کوشش جاری رکھے، چاہیے جس فیلڈ  ، جگہ  ، یا وقت  میں ہو،  تنقید پرستوں کو اپنا کام کرنے دے اور خود ان کے تنقید کو تعریف سمجھ آگے بڑھتے جائیں لوگوں کی زندگیوں میں اسانیاں لاتے جائے ، انشاءاللہ اللہ اس کا بدلہ کامیابی اور کامرانی کے صورت میں دیگا ۔

۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :