زندگی میں ریورس

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

بچپن کی یاد، جوانی کا پیار اور بڑھاپے کی بے عزتی کبھی بھی بھولنے سے نہیں بھولتی۔ ایک خواہش ایک درد  ایک احساس ایک بدلے کی آگ ہمیشہ دل میں جلتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی ہم زندگی کی اس موڑ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ہم نے سٹارٹ کیا ہوتا ہے۔ ہم گھوم پھر کر ایک بار پھر زیرو پر اجاتے ہیں۔ ہماری کوشش ہماری تھکن ہماری محنت پتہ نہیں کیوں بیکار ہو جاتی ہے؟۔

ہم اپنے کام سے مخلص ہوتے ہیں ہم اپنے اردگرد حلقہ احباب سے مخلص ہوتے ہیں۔پھر بھی پتہ نہیں کیوں ہم سٹارٹنگ پوائنٹ پر واپس اجاتے ہیں ؟۔ ہماری پانچ دس سال کی محنت بیکار چلی جاتی ہے۔ ہماری انسو ہماری عبادتیں ہمارے سجدے قبولیت کے معیار تک نہیں پہنچ پاتے ۔ ہم تلاش کرتے ہیں۔ خود کو کوستے ہیں۔ خود کو اپنے اپ کو اپنے خیرخوہوں کو اپنے بزرگوں کو ہم برا بھلا کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم روز سوچتے ہیں ہم نے اپنی زندگی برباد کی ایک ایسی سفر میں جس کی منزل زیرو تھی ۔ ہم دائرہ میں گھوم رہے تھے۔ ہم جہاں سے چلے تھے وہاں آج بھی کھڑے ہیں  ۔ یہ سوچیں یہ باتیں اور یہ سفر ہماری نیند ہماری سکون کو ختم کر دیتی ہیں اور اس لمحے ایک ہی خواہش دل میں سر اٹھاتی ہے کہ کاش میں مر جاو کاش مجھے موت آئے کاش میری زندگی کا دی اینڈ ہو جائے ۔

ہم اس کے آگے جینے کے لئے کوئی اور سفر سٹارٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔۔۔۔
وہ ایک چھتیس ، سینتیس سال کا پختہ ذھن جوان مجھ کو ہم راز بنا رہا تھا۔ وہ رو رہا تھا  ۔ وہ ناامید ہو چکا تھا۔ اس کے لئے اب مرنا جینے سے آسان تھا۔ وہ بالکل ڈیپرس تھا۔ وہ پتہ نہیں کن کن امتحانوں، کن کن طوفانوں سے ٹکرایا تھا۔ پتہ نہیں اس نے کتنی اذیت برداشت کی تھی ۔

کہاں کہاں بھٹکا تھا۔ کن کن پیروں اور مرشدوں کے دربار میں حاضر ہوا تھا لیکن رزلٹ وہی تھا ۔ جو وہ بیان کر رہا تھا۔ وہ ہر تکنیک ہر داو پیج کو آزما چکا تھا۔لیکن پھر بھی وہ ناکام تھا پتہ ہے  کیوں؟
سوچنی والی بات ہے دل کو چیرنی  والی بات ہے کہ ایک انسان اتنی محنت اتنا انتظار کرے اور نتیجے میں وہ ناکام اور ہارا ہوا لکھا جائے ۔ وہ جو لوگوں کے لئے ایک مثال ہوا کرتا تھا وہ خود ناامیدی کی اندھیروں میں چیخے چلائے ۔

اسے اپنے تقریرے اپنی تحریریں اپنے سجدے اور اپنی پرہیزگاری فضول اور وقت کا ضائع لگے ۔ وہ پھر سے پیدا ہونے کے خواب دیکھے وہ اپنی زندگی کی اس پوائنٹ جہاں سے اس نے سٹارٹ کیا جہاں سے اس نے فیصلہ کیا جہاں سے اس نے رسک لیا دوبارہ جینا  چاہتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ وقت دوبارہ لوٹ آئے اور وہ فیصلہ وہ رسک جو اس نے لیا آب کے بار نہیں لے ۔۔
اس اکیلے کی سوچ ایسی نہیں بلکہ یہ ہم سب کی حقیقی زندگی کا ڈھانچہ ہے۔

ہم سب اپنے رشتے اپنے کاروبار اپنی نوکری اپنی محنت یہاں تک کہ اپنے محبت کو پھر سے جینے پھر سے وہ وقت لوٹنے اور دوبارہ فیصلے کے لئے سپنے چنتے ہیں۔ ہمارے سب خوابوں خواہشوں میں بڑی خواہش فیصلے کے لمحے کو ریورس کرنا ہے۔ اپ مانے یا نہ مانے یہ ہماری زندگی کی حقیقت ہے۔ پر یہ کیوں ایسا ہے؟
ہم اپنی زندگی خود ڈیفین ( define) کرتے ہیں،  خود ہی جیتے ہیں اور خود ہی دوسروں سے میچ کراتے ہیں۔

ہم ہمیشہ اپنی زندگی کو اپنی لائف سٹائل کو اپنے اوپر ہونے والے نعمتوں کا دوسرے کے زندگی کے ساتھ مقابلہ  کراتے ہیں۔ ہم ہمیشہ کامیاب ، پرسکون اور خوش ہوتے ہیں تب تک جب تک کوئی طوفان کوئی حادثہ کوئی چٹان ہمارے سامنے کھڑا نہیں ہوتا ۔ ہم ہمیشہ دوسروں کو پرسکون رہنے اپنے حال پر صبر شکر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہم ہمیشہ دوسروں کو رسک لینے کے گر بتاتے ہیں۔

لیکن جب بات ہماری اوپر آتی ہے۔ جب ہم خود اندھیروں میں تکلیفوں میں، طوفانوں، آزمائشوں میں پھنس جاتے ہیں تو ہم سے بڑا ناشکرا،  ہم سے بڑا بے وقوف اور ہم سے بڑا بدنصیب دوسرا کوئی نہیں ہوتا ۔ ہم دراصل آزمائش کو تکلیف کو بھی اپنے مرضی اور طبیعت کا تابع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ہمیں نہ غربت میں آزمائے نہ غم اور نہ تکلیف میں،  بس صرف راحت میں، پیسوں کی فروانی اور بڑے مقام پر ہمارا رب ہمیں ازمائے۔

۔۔۔
میں نے اسے کہا کہ بھائی میرے ،اپ ایسا کرو اپنے ہم عمر ساتھیوں،  کلاس فیلوز،  اور دوسرے کولیک جو تمھارے پہنچ میں ہو ان کی حالت زندگی،  ان کی سوچ اور ان کے ارمان جھنجھوڑ کے دیکھو،  صرف دو تین یا چار پانچ ایسے ہونگے جو آپ کے نظر اور سوچ کے مطابق آپ سے بہتر ہونگے باقی سب کس نہ کسی کمی کسی نہ کسی تکلیف اور کسی نہ کسی اندیشے سے نبردازما ہونگے۔

اپ ان سے ملے گے ان سے بات ہوگی ان کے حالات زندگی کے بارے میں  ریسرچ کرو گے ۔ تو انشاءاللہ  اپنے حال پر اللہ کا شکر اور اپنے منزل میں اعلی مقام پر  ہونگے ۔ ہماری بدقسمتی یا کم علمی یا پتہ نہیں کیا ہے کہ ہم ہمیشہ اس وقت ناامید اور ناشکرے بن جاتے ہیں۔جب اپنے سے کامیاب اور خوشحال شخص سے ملتے ہیں۔ ہم اللہ کے ان احسانات کو ان نعمتوں اور ان خوشیوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ نے ہم پر اپنے کیریئر اپنے سفر کے دوران اور اب کر رہا ہے۔

ہمیں صرف تکلیفیں اور امتحان یاد ہوتے ہیں اور خوشیوں کو ہم بھول جاتے ہیں۔۔۔۔
اس کو تو جتنا میں مطمئن کر سکتا تھا کیا۔ کہ ہمیں ہر حال میں ہر امتحان میں، ہر اندھیرے ، ہر بند دروازے، اور ٹوٹتے ہوئے خواب میں مثبت پہلو تلاش کرنی چاہئیں ۔اور اس کو اللہ کی مرضی سمجھ کے اس پر صبر و شکر کرنا چاہیں ۔  لیکن ہزاروں ایسے جوان اور بڑے بوڑھے لوگ ہے۔

جو اپنی گزری ہوئی زندگی کو واپس کرنا چاہتے ہیں، انہی ٹھیک کرانا چاہتے ہیں۔ خود کو ان کے نظر میں جو کامیاب ہے ان سے آگے کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک فضول قسم کی سوچ ایک فضول قسم کا سپنا جو ہمارے خوشیوں اور سکون کا قاتل ہے، روز ہمارا خون اور دماغ کھا رہا ہے، اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور اللہ ہمیں اپنے شکرگزار اور مطمئن بندوں میں شمار کرے ۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :