غلط سمت کا سفر

بدھ 15 دسمبر 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

جو پڑھایا جاتا ہے،  جو دکھایا جاتا ہے،  جس  نقش میں اترا جاتا ہے،  انسان وہی بن جاتا ہے۔ انسان کی مثال پگلھی ہوئی لوہے کی ہے جس سانچے میں ڈالوں، وہی نقش وہی تصویر بن جاتی ہے۔ لوہے کو دوسرا شکل دینے کے لیے اسے پھر سے پگھلایا جانا ہوتا ہے۔ پھر سے اگ کی بھٹی گرم کرنا پڑتی ہے۔ پھر سے ہزاروں درختوں کو تنوں سے محروم کرنا پڑتا ہے تبھی جا کے شکلیں بدلتی ہیں،  عادات بدلتے ہیں، اخلاق بدلتے ہیں، سماج بدلتے ہیں،  شخصیات بدلتے ہیں، دل بدلتے ہیں، جان بدلتے ہیں۔

۔۔
اسے  ہماری کم نصیبی کہے کہ زمانے کا ٹرینڈ یا معاشرے کی تباہی کہ ہمیں م سے محبت کرنا سکھایا گیا ہمیں رومیوں جولیٹ سے آشنا کرانے کے لئے کتابوں پے کتابیں لکھی گئی،  لیلی کو مجنوں، فرہاد سے شیرینی اور نجانے کون کون سے کرداروں سے ہماری ملاقات کرائی گئی،  ہمارے ہر غزل میں جب بھی محبوب کو پکارا،  تو حیسن پلکوں،  خوبصورت ہونٹوں، نجانے جسم کے کن کن اعضاء کو نشانہ بنایا گیا اور محبت کے بکواس لازوال داستانوں کے ساتھ ہمارا تعارف  کرایا گیا، محبت کے معنی کو ، محبت کے مفہوم کو ،محبت کے تقاضوں کو،  محبوب کو، دل کی تڑپ کو غلط سانچے میں ڈالا گیا،  ہمیں ہر کتاب میں، ہمیں ہر کہانی میں، صرف گلیمر دکھایا گیا، پڑھایا گیا ، سمجھایا گیا ، ہم محبت  اور عشق کو گلیمر کے معنوں میں اور  محبوب کے داستانوں میں تلاش کرنے لگے ، روایت ہی ایسی ہے کہ محبت ہو اور جسم نہ ہو، محبت ہو اور درد نہ ، عشق ہو اور پچھتاوا نہ ہو،  یہ کیسے ممکن ہے۔

(جاری ہے)

۔۔
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ محبت غلط تھی یا صحیح،  یا کہانیاں حقیقی ہیں یا افسانوی،  میں کسی کردار کو ، کسی داستان کو نشانہ نہیں بنانا چاہتا ،  لیکن جس طرح یہ بیان ہوئے۔ جس طرح ان پر کتابیں،  فلمیں، اور ڈرامے بنائے گئے،  روحانیت کو کمزور کرکے جسم کو تقویت بخشی گئی۔۔۔
یقین کیجئے، ہمیں بھٹکایا گیا ، ہمیں مس گائیڈ کیا گیا ہیں۔

کیونکہ میم سے پہلے الف آتا ہے،  اور وہی الف اللہ اور انسان کے تعلق کا ذریعہ ہے ۔ وہی الف سے ہمیں  سیدھا میم پر  جانا تھا ،لیکن بدقسمتی سےہمیں راستے میں جیم سے گمراہ کیا گیا،  ہمیں جسم کے تقاضوں سے آشنا کرایا گیا ،  ہمیں تو یہ سیکھنا تھا کہ الف کے طرح سیدھا راستہ انسان کو اللہ تک پہنچاتی ہے۔ ہمیں، بلال حبشی،  شمس تبریز،  مولانا روم اور بہت سے دوسرے علماء اور اساتذہ کرام کو فالو کرنا تھا،  لیکن ہمیں جسم سے چمٹایا گیا،  ہمارا عشق کبھی الف سے شروع نہیں ہوا ہمیشہ عین سے شروع اور تباہی پر ختم ہونے لگا ، روح ، روحانیت صرف کتابوں میں لکھنے اور پڑھنے کے لیے رہ گیا،  جب بھی عشق کا ذکر آیا ہمیں مثال مجنوں کا ملا ،مولانا روم کا نہیں،  جب محبت کا ذکر آیا ہمیں پانے اور کھونے میں پھنسایا گیا ۔

کبھی یہ نہیں بتایا کہ محبت ہو اور سکون نہ ہو،  محبت ہو اور آنسو نہ ہو،  محبت ہو اور دل صاف نہ ہو،  کبھی یہ یاد نہیں دلایا کہ محبت مخلوق سے ہوکر  خالق تک پہنچاتی ہے، محبت کے معنوں میں یہ معنی گھوم ہوگئی اور محبت کی معنی بھی جسموں کے بھوکے لوگ پوچھنے لگے ، وہی لوگ جو محبت کو خود ساختہ کہانیوں میں ڈھونڈنے لگے ، کبھی اپنے دل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی کہ اس میں خون کے ساتھ ساتھ محبت بھی دوڑ رہی ہے ، یا نہیں ۔

۔۔
ہمیں روحانیت،  عشق حقیقی،  محبت الہی کے بارے میں کبھی صحیح گائیڈ نہیں کیا گیا،  جب کبھی روحانیت دیکھائی گئی تو ایک محبت میں ہارے ہوئے شخص کو چادر لپیٹ کے دکھایا جاتا ہے،  عشق حقیقی میں ڈوبے ہوئے شخص کو پاگل ذہنی مریض دکھایا اور لکھایا جاتا رہا ۔ہم دور ہوتے گئے روحانیت، عشق الہی،  عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ، ہم محبت اور عشق تو جسموں سے کرنے لگے،  لیکن صلہ، بدلہ روح کا مانگتے رہے۔

  کیا عشق الہی کے لئے کسی حلیہ یا گیٹ آف کی ضرورت ہے۔؟ کیا عشق حقیقی کے لئے عشق مجازی میں ہارنا ضروری ہے۔؟ کیا صرف ٹوٹے ہوئے دل ہی عشق حقیقی کے لئے بنے ہیں؟ نہیں  بالکل بھی نہیں،  صرف ہمیں غلط سکھایا گیا  ہے۔۔۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عشق کیجئے،  ان کے احکام میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقوں میں فلاح اور کامیابی ہے۔

کسی خاص لمحے،  کسی خاص سیچیویشن کی ضرورت نہیں،  اللہ سے رابطے کے لئے ایک انسو،  ایک سجدہ، ایک چھوٹا سا عمل کافی ہوتا ہے۔ اللہ روز ہمیں پکارتا ہے فرماتا ہے أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ  ، فاذكروني اذكرؤكم،  لیکن یہ ہم ہیں جو روز بروز گمراہ ہوتے جا رہے ہیں،  اللہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں،  غلط طریقوں میں سکون اور دین ڈھونڈ رہے ہیں۔ اللہ ہم کو اپنے راستے پر چلنے اور عشق حقیقی کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :