کامیابی کی سیڑھی

منگل 1 دسمبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

اکیلے میں رونا، خود سے باتیں کرنا، اور سوچوں میں خیالوں میں اپنے خواب کو حاصل کرنا بہت سے لوگوں کو پاگل پن لگتا ہے۔ ایک مسلسل کوشش ایک جامع منصوبہ،  دل میں بسا ہوا خواب اور خواب کو حاصل کرنے کے لیے راستہ،  یہ سب چیزیں بہت آسان لگتی ہیں۔ ایک موٹیوئیشنل کامیاب استاد پانچ منٹ میں سب کچھ بتا کے چلا جاتا ہے۔ ہم رشک سے اسے سنتے ہیں۔

دیکھتے ہیں،  اور اپنے دل و دماغ میں یہ سوچ لاتے ہیں کہ دیکھو کتنا سمجھدار اور کامیاب شخص ہے جو زندگی کے سب گر بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے،،،،،،،
ہمیں ان کی زندگی ان کاکام بہت پرفیکٹ اور مزے والا لگتا ہے،  ہم کبھی اس کے اس حالت یا کوشش کے بارے میں سوچتے ہی نہیں جب وہ اکیلے بیٹھ کر گھنٹوں بلکہ دنوں تک سوچتا تھا۔

(جاری ہے)

اکثر احساس میں سوچ میں اپنے بے چارگی ، اپنے بے بسی پے روتا تھا۔

کوئی اس سے سیدھے منہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ خاندان میں،  علاقے اور گاؤں میں نالائق اور بدنصیب کے نام سے مشہور تھا ،،،،،۔
وہ اج اپنے اعصاب پر قابو پا کے ، اپنے آنسو کو پے کے ، اپنے نیندوں کو قربان کر کے ، اپنے بدن کے اعضاء کو تھکا کے، اپنے کانوں کو لوگوں کی باتوں سے بہرا کر کے ، بے عزتی اور محفل سے نکلنے کے غم کو برداشت کر کے ہمارے سامنے ایک کامیاب استاد ، کامیاب تاجر ، کامیاب انجینئر،  کامیاب ڈاکٹر یا کامیاب انسان بن کے کھڑا ہے۔

۔۔۔۔،،،،،،،
دوستوں ہم جب کبھی کسی کامیاب ادمی کو دیکھتے ہے ۔ ان سے ملتے ہیں۔ ان سے باتیں کرتے ہیں۔ تو ہم ایک احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کہ دیکھو اس پر قسمت کتنا مہربان ہے۔ کتنی آسانی ہے اس کی زندگی میں،  کوئی غم یا ٹینشن نہیں،  بس مزے ہی مزے ہیں ہم بھول جاتے ہیں۔۔۔۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑے مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہم ان کے گمنامی کے زمانوں سے نہ خبر ، ان کی اذیت کی زندگی سے نہ خبر،  اپنے انداز میں اسے سوچتے ہیں۔

لیکن ایک تنا اور درخت بنے کے لئے اس بیج نے جو تاریکیاں،  جو گمنامیاں،  جو طوفان،  جو زیر زمین تکلیف  دیکھی ہوتی ہے ان سے ناخبر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی کم انسان بلکہ یوں کہہ لے کہ آٹے میں نمک کے ایک زرے برابر لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ جو آسانی سے اپنے خواب حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن ان خوابوں میں وہ مزہ وہ احساس نہیں ہوتا جو طوفانوں سے لڑ کے ، حالات کا مقابلہ کر کے ، راتوں کو جاگ کے اور رو کے  ، اور ہمیشہ چلتے رہنے سے حاصل ہوتے ہیں۔


زندگی ایک مسلسل کوشش اور چلنے کا نام ہے۔ ہر سٹیج پر،  ہر مقام پر اپنا ایک رول ہے ایک کریکٹر ہے۔ جسے نبھانا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ دولت کو کامیابی تصور کرتے ہیں۔ بہت سے تعلیم اور عہدے کو، لیکن اصل کامیابی خود کو پانا، خود شناسی ہے۔ جب اپنا اپ مل جاتا ہے۔ تو پھر اللہ سے سیدھا کلام ہوتا ہے۔ پھر وسیلوں کی ضرورت نہیں رہتی ۔ پھر صرف ایک سجدہ صرف تھوڑی سی خاموشی اور تھوڑا سا پانی جو انکھ سے  نکلے بندے کو اللہ سے براہ راست ملا دیتی ہیں ۔

،،،،
آج اگر تیرے رونے کا گمنامی کا دوار ہے ۔ تو رو لے جی بھر کے خود کو روکنا نہیں  رونا بھی کامیابی کی ایک سیڑھی ہے ، لیکن تب جب یہ اپنے رب کے سامنے ہو۔ اپنے حالات اور اپنے بے چارگی لاچاری پے ہو۔ اگر گمنامی کا زمانہ ہے تو گمنام ہو جا دب جا اپنے انسو، اپنے کام ، اور کوشش کے نیچے،بقول عاطف شیخ صاحب کے فیلڈ میں اپنے اپ کو  برباد کر ، بس صرف ناامید نہیں ہونا۔

کیونکہ اللہ فرماتا ہے لا تقنطوا من رحمة الله،  اللہ کے رحمت سے ناامید نہیں ہونا ۔ کیونکہ دنیا اور فزکس کا قانون ہے کہ تو ان فٹ  لگایے گا تو اوٹ پٹ ملے گا۔،،،،
آج تو رو، دل و جان سے رو،  کل تو انشاءاللہ اپنے محنت اور اللہ کے رحمت سے ہنسے گا۔ تمھارا سفر ایک سبق ایک تحریر اور دوسروں کے لیے موٹیوئیشن بن جائے گا۔ تم بڑے بڑے محفلوں میں اس کا تذکرہ کرو گے ۔ بڑے فخر سے ،بڑے شان سے اپنے انسوں کا حساب لگاو گے ، اور بڑے غرور سے اپنے گمنامی کے سفر کو بیان کرو گے ،  ، انشاءاللہ  بس تھوڑا صبر اور برداشت، ،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :