سنت ابراہیمی اور ریا

جمعرات 6 اگست 2020

Arwa Sohail

ارویٰ سہیل

عید الاضحی، جسے عید ایثار بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان جو صاحب حیثیت ہیں اس عید پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ناقابل فراموش ہے۔ رات خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم خداوندی آتا ہے کہ اپنی سب سے محبوب چیز اللّٰہ کی راہ میں قربان کر دو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی محبوب ترین چیز کا جائزہ لیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کی محبوب ترین شہ تو ان کی پیاری اولاد حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔ جن کو انھوں نے طویل صبر اور دعاؤں کے بعد اللّٰہ سے مانگا تھا۔ وہ اپنا خواب جب اپنے فرزند حضرت اسماعیل سے بیان کرتے ہیں۔ تو فرذندان ابراہیم علیہ السلام اللّٰہ کی رضا میں راضی ہو کر قربان ہونے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

پھر اللّٰہ معجزہ خداوندی کے ذریعے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نئی زندگی بخشتے ہیں اور حضرت ابراہیم کی قربانی و ایثار کو قبول فرماتے ہوئے تاقیامت اس سنت کو زندہ کر دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل باشعور انسان کے لیے بہت سارے اسباق کو سیکھنے کا باعث ہے۔
انسان بہت جلد طمع اور ریا میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مسلمان سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی تو کر لیتے ہیں۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ دکھاوے اور ریا کاری سے اپنے عمل کو ضائع کر دیتے ہیں۔ جانور کو ذبح کرنا شاید اتنا مشکل عمل نہیں ہے جتنا اپنے نفس کے بہکاوے سے بچتے ہوئے طمع اور ریا کاری سے پرہیز کرنا ہے۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے آپ کو ساری زندگی ریا سے بچائے رکھا۔ مشہورِ زمانہ قول ہے کہ
" ریا انسان کے دل میں ایسے آ جاتی ہے جیسے سیاہ رات میں سیاہ پہاڑ پر سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی رینگ رہی ہو"۔


صاحب حیثیت افراد پر اللّٰہ نے قربانی فرض کی ہے۔ اس کا مقصد صرف جانور قربان کر دینا نہیں ہے۔ بلکہ مسلم معاشرے کی اخلاقی تربیت بھی مقصود ہے۔ اللّٰہ اس عمل کے ذریعے مسلمان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے اخلاص اور نیت کے ذریعے ، اپنے نفس کو ریا سے بچا کر اپنے جانوروں کو خالصتاً اللّٰہ کی رضا کے لیے قربان کرے۔ تا کہ ایک ظاہری عمل جس کے محدود فوائد ہیں اس میں اخلاص و تقویٰ کی آمیزش سے اس کو روحانی عمل بنا کر اس کے فوائد کو لامحدود بنایا جا سکے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
" نہ ان کے گوشت اللّٰہ کو پہنچتے ہیں نہ ان کے خون، مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔"
( الحج)
مگر افسوس اس عید قربان پر لوگوں کے ریا پر مبنی تاثرات جاننے کا موقع ملا تو ایسا محسوس ہوا جیسے دل تکلیف سے پھٹ رہا ہو۔ انسان اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی اللّٰہ کے اس تقاضے کو سمجھ نہ سکا اور اپنے عمل کو ریا کی بھینٹ چڑھا کر تقوی سے خالی کر دیا۔
 یہ مسلمان ہیں جن کو دیکھ کر شرمائیں یہود
یقینا اپنے نفس کو ریا سے پاک رکھنا ایک کٹھن کام ہے۔ لیکن اسی سے انسان اپنے عمل کو اللّٰہ کے نزدیک پسندیدہ اور قابل قبول بنا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :