تحریک پاکستان دراصل تنظیم پاکستان

پیر 29 مارچ 2021

Arwa Sohail

ارویٰ سہیل

1857 کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شکست اور انگریزوں کی غیر منصفانہ حکومت نے مسلمانوں کو انگریزوں اور انگریزوں کی پالیسیوں سے متنفر کردیا۔ اس ہی نفرت میں مسلمانوں نے انگریزی تعلیم لینے سے بھی انکار کردیا۔ نتیجتاً مسلمان بری طرح شعوری اور معاشی پسماندگی کا شکار ہوگیے۔
اس تکلیف دہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی تعلیم کا بیڑا اٹھایا۔

انھوں نے مسلمانوں کو مغربی علوم سیکھنے کی ترغیب دی۔ ان کے نزدیک مغربی تعلیم کا حصول وقت کی ضرورت ہے۔ لہذا سرسید نے مغربی تعلیم کے فروغ کے لیے کئی ادارے بنائے۔ ان میں سائنٹفک سوسائٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام قابل ذکر ہے۔ تحریک پاکستان میں سرسید کی تعلیمی خدمات نے بنیادی اینٹ کا کردار ادا کیا۔

(جاری ہے)


تعلیم کی بدولت مسلمانوں میں شعور بیدار ہوا۔

انھیں سرکاری ملازمتوں کا اہل سمجھا جانے لگا۔ سرکاری اداروں کا نظم و نسق چلانے میں مسلمانوں کو فیصلہ سازی کا اختیار ملا۔ اس تعلیم کی ہی بدولت مسلمانوں میں سیاسی شعور اجاگر ہوا اور انھوں نے اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
تنظیم پاکستان کے لیے بھی حصولِ تعلیم اتنی ہی اہم ہے جتنی قیام پاکستان کے لیے ضروری تھی۔

آج ہمارے ملک کی ایک کثیر آبادی تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ اس کے باوجود وہ طلبہ جو آج عصری علوم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کا نظریہ تعلیم بھی صرف علم برائے حصولِ مادہ کے اردگرد گھومتا ہے۔ سوچ اور نظریے کے اس فقدان کی وجہ قرآن وسنت سے دوری ہے۔ علم برائے حصولِ مادہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا نظریہ جو علمی حلقوں میں کارفرما ہے وہ قرآن و سنت کی تعلیم کو اہمیت دینا اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کو حقیر یا غیر ضروری سمجھنا ہے۔

ان دو انتہائی نظریات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو رہا ہے جو صرف مادی ترقی کو ہی ترقی گردانتا ہے۔ جن کے پاس بہترین علمی قابلیت تو ہے لیکن ان کے قلوب دین کی روح سے بیگانہ اور مغربی تہذیب کی مرعوبیت سے آشنا ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وہ گروہ ہے جو دینی سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ دور حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم اور دین کی روح کے بغیر مسلمان دنیا پر حاکمیت کا تصور نہیں کر سکتے، اپنے آپ کو مغربی تسلط سے نہیں بچا سکتے۔ اس سلسلے میں ایک ایسا نظام تعلیم ضروری ہے جو نسل نو کو جدید علوم میں بھی بہترین بنائیے اور ان میں خشیت الٰہی اور محبت رسول کو بھی پروان چڑھائے۔ کیو نکہ
اللّٰہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :